معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
جہنم مؤمن سے کہے گاکہ جلد میرے اوپرسے گزرجاکہ تیرانورمیری آگ بجھائے ڈالتاہے۔ پس ہلاک نارِ نورِ مومن ست زاں کہ بے ضد دفعِ ضد لا یمکنست پس جہنم کی آگ کو بجھانے والا مؤمن کا نورایمان ہے کیوں کہ ہرچیزاپنی ضد ہی سے دفع ہوتی ہے۔ گرہمی خواہی تو دفع شرِِّ نار آبِ رحمت بر دلِ آتش گمار اے مخاطب!اگرتوچاہتاہے کہ دوزخ کی آگ تجھے نہ جلائے تو اس پر رحمت کاپانی ڈال دے یعنی کثرت سے استغفار و آہ زاری کرکے حق تعالیٰ کی رحمت کو اپنے اوپرمتوجہ کرلے۔ تا ہویٰ تازہ ست ایماں تازہ نیست کیں ہوا جز قفلِ ایں دروازہ نیست جب تک خواہشاتِ نفسانیہ تازہ ہیں ایمان میں تازگی نہیں ہوسکتی کیوں کہ یہ خواہشاتِ نفس ہی حق تعالیٰ کے قرب کے دروازے کے لیے قفل ہیں۔توبۂ نصوح توبہ کن مردانہ سر آور برہ کہ فمن یعمل بمثقال یرہ اے مخاطب! مردانہ وار توبہ کرگناہوں سے اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں قدم رکھ دے کیوں کہ کب تک خداسے دور رہ کر گناہ کرتارہے گا اور جب کہ ہر ذرہ ذرہ عمل کو قیامت کے دن اپنے اعمال نامہ میں موجود پاوے گا۔ و از پدر آموز کادم از گناہ خوش فرود آمد بسوئے پائیگاہ