معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
آب و حیِ حق بدیں مردہ رسید شد ز خاکِ مردۂ زندہ پدید وحیِ حق کا پانی جو اس مردے کوپہنچاتو خاکِ مردہ سے زندہ ظاہر ہوگیا مطلب یہ کہ اگر اس نفس کو وحیِ حق کاپانی مل گیا تو وہ بھی زندہ ہوگیا اور اتباع وحیِ الٰہی کی برکت سے اس کو حیاتِ ابدی حاصل ہوگئی۔فنائیتِ دنیا لَا تَشْکِیْکَ فِی الْمَاہِیاتِ جادوئیہا را ہمہ یک لقمہ کرد یک جہاں پُر شب بداں را صبح خورد حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصا نے فرعون کے تمام جادوؤں کو ایک لقمہ کرلیا اور ایک جہانِ پُر شب کو صبح کھاگئی۔مطلب یہ کہ چوں کہ دنیا اپنی چمک دمک سے مثل ساحرانِ فرعون کی جادوگری اور نظر بندی کے تم کو دھوکا اور فریب دے کر آخرت سے غافل کرنا چاہتی ہے تو دیکھو تم فریفتہ مت ہونا اور دھوکے میں مت آنا۔ ورنہ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کی لاٹھی اژدہا بن کر سب کو ہضم کرگئی تھی اسی طرح موت ان سب رونقوں کو فنا کردے گی اور پھر ایسی مثال ہوجاوے گی جیسے رات کے بعد صبح آوے تو رات کا کہیں نام و نشان نہیں رہتا۔ ایک دم غائب ہوجاتی ہے۔ اسی طرح موت سے یہ سب چیزیں فنا ہوجاتی ہیں ؎ در اثر افزوں شد و در ذات نے ذات را افزونی و آفات نے یعنی اثرمیں زیادتی ہوئی ذات میں نہیں، مطلب یہ کہ نورِ صبح نے جو ظلمتِ شب کو کھالیا یا عصائے موسوی نے جو سانپوں کو کھالیا اس سے ان چیزوں میں کوئی زیادتی نہیں ہوئی۔