معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
ذوالنورین کے لقب سے مشرف ہوئے یعنی آپ کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیوں کے عقد سے شرف حاصل ہوا۔ چو ز رویش مرتضیٰ شد دُر فشاں گشت او شیرِ خدا در مرجِ جاں جب فیضِ نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت علی رضی اللہ عنہ درفشاں ہوئے اور علومِ خاصہ کے مظہر ہوئے توآپ دین کی چراگاہ میں شیرِِ خدا کے لقب سے مشرف ہوئے ؎ گفت ہر کو را منم مولیٰ و دوست ابنِ عمِّ من علی مولائے اوست حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ جس شخص کا میں مولیٰ اور دوست ہوں میرے چچاکے بیٹے علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ بھی اس کے مولیٰ اور دوست ہیں۔افتتاحیہ بشنواز نے چوں حکایت می کند و ز جدائیہا شکایت می کند مولانا فرماتے ہیں کہ بانسری سے سنو کہ دردناک آواز میں کیا واقعہ بیان کرتی ہے اور اپنے مرکز کی جدائی سے کیا غم بیان کرتی ہے۔ فائدہ : مرادبانسری سے یہاں انسان کی روح ہے جو عالمِ امر سے کٹ کراس عالمِ فراق میں آئی ہے اور اس میں الست بربّکم کی چوٹ کادرد موجودہے ، یہ روح اپنے اندرحق تعالیٰ کی جدائی کے ہزاروں نغمات مضمررکھتی ہے مگر جس طرح بانسری خود نہیں بجتی اگرچہ اس میں صدہا دردناک آوازیں مضمرہیں جب کوئی بجانے والا اس کے ایک سرے کو منہ میں رکھ کربجاتاہے توصدہا آہ ونالے دوسرے سرے سے برآمد ہوتے ہیں، اسی طرح یہ روحِ انسانی بانسری کی طرح ہے جب اپنا ایک سرا شیخِ کامل کے منہ میں تفویض کرتی ہے تو اس کی تمام صلاحیتیں یعنی آہ ونالۂ جدائی کی صدہا درد ناک آوازیں اس سے