معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
لازم آتاکہ بندوں کے اختیار سے زیادہ ان پر تکلیفِ شرعی کا بار رکھا گیا۔ خوب سمجھ لیا جاوے۔ (ہٰذا من فیوضِ مرشدی رحمۃ اللہ علیہ) حسنِ مجازی کی حقارت وفنائیت اور ناقابلِ التفات ہونے پر احقر نے ابھی ابھی ایک نظم لکھی ہے جس کا عنوان’’ کلامِ عبرتناک برائے عشقِ ہوسناک ‘‘ہے، افادۂ قارئین کے لیے درج کرتاہوں، حق تعالیٰ اپنی رحمت سے قبول فرماویں اور خلق کے لیے نافع فرماویں۔ آمین ۔کلامِ عبرتناک برائے عشقِ ہوسناک از احقر اختر وہ زلفِ فتنہ گر جو فتنہ ساماں تھی جوانی میں دمِ خر بن گئی پیری سے وہ اس دارِ فانی میں جو غمزہ شہرۂ آفاق تھا کل خونفشانی میں وہی عاجز ہے پیری سے خود اپنی پاسبانی میں سنبھل کر رکھ قدم اے دل بہارِ حسنِ فانی میں ہزاروں کشتیوں کا خون ہے بحرِ جوانی میں ہماری موت روحانی ہے عشقِ حسنِ فانی میں حیاتِ جاوداں مضمر ہے دل کی نگہبانی میں جو عارض آہ رشکِ صد گلستاں تھا جوانی میں وہ پیری سے ہے ننگِ صد خزاں اس باغِ فانی میں جو ابرو اور مژگاں قتل گاہِ عاشقاں تھے کل وہ پیری سے ہیں اب مژگانِ خر کیچڑ روانی میں