معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
ہواکہ معنیٰ سے محروم ونامراد رہا۔ فائدہ : اس دانا نے علم کو درخت سے تشبیہ دی جس کا مقصد امتحان تھا۔ علم عرض اور معنیٰ ہے اور اعراض ومعانی قائم بنفسہٖ نہیں ہوتے۔ اپنے وجود کے لیے محتاج ہوتے ہیں۔ پس علم کو علماء ہی سے حاصل کیاجاسکتاہے اور علماء ہی اس کے درخت ہیں۔ علم سے مراد صرف وہی علم ہے جوبندہ کو خداتک پہنچادے اور جس علم کے ذریعے معاش اور ملازمتیں ملتی ہیں وہ علوم صنعت وحرفت کہلاتے ہیں۔ علم اپنے حقیقی معنیٰ کے اعتبار سے صرف علمِ دین ہے جس کے ذریعے بندہ اپنے مالک کوراضی کرکے دونوں جہان کی باعزت حیات حاصل کرتاہے اور جس کے بغیرآدمی زندہ رہتے ہوئے بھی مردہ ہوتاہے۔ اسی مفہوم کے پیشِ نظر علم کو آبِ حیات سے تعبیر کیا گیا، بدونِ علم کے خدا کی معرفت ناممکن ہے کہ بے علم نتواں خدارا شناخت۔ اللہ تعالیٰ علمِ صحیح(علمِ دین) ہم سب کو عطا فرمائیں اور عمل کی توفیق بخشیں،آمین۔قصّہ عزرائیل کابغور دیکھنا ایک شخص کو ایک سادہ انسان حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس کا چہرہ خوف سے زرد ہورہاتھا۔ پس حضرت سلیمان علیہ السلام نے دریافت کیا کہ تم کیوں خوف زدہ ہو۔ اس نے عرض کیاکہ مجھے حضرت عزرائیل علیہ السلام نے غضبناک نظر سے دیکھا، اس وجہ سے مجھے بے حد تشویش ہے۔ ارشاد فرمایاکہ پھر تم کیاچاہتے ہو۔ اس نے کہا: مجھے یہاں سے ہندوستان پہنچادیجیے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہوا کو حکم دیاکہ اس کو ہندوستان میں اس مقام پر پہنچادوجہاں یہ جانا چاہتاہے۔ دوسرے دن حضرت عزرائیل علیہ السلام سے حضرت سلیمان علیہ السلام نے بوقتِ ملاقات دریافت کیاکہ آپ نے ایک مسلمان کو اس طرح غور سے کیوں دیکھاجس سے وہ تشویش میں مبتلاہوا، کیا تمہارا ارادہ اس کی روح کوقبض کرناتھااور بیچارے کو اسی غریب الوطنی میں لاوارث کرنا تھا ۔