معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
’’احتراز از شکوۂ یاروتعلیمِ رضا وتسلیم‘‘ شکوۂ یار عشق میں ہر گز کبھی رواں نہیں ان کی ہر اک ادا کبھی میرے لیے جفا نہیں ظاہر میں گو بلا سہی لیکن کرم لیے ہوئے جس میں ہماری مصلحت مضمر ہو وہ سزا نہیں بندوں کا عشق نا تمام ہوتا نہیں ہے آہ تام نفس کی خواہشات کا جب تک کہ خوں ہوا نہیں ان کی مراد ہے اگر میری یہ نامرادیاں ان کی رضا ہی چاہیے دوسرا مدعا نہیں تجھ کو جو ہو پسند اب مجھ کو بھی ہو وہی عزیز لے کر کریں گے کیااسے جس میں تری رضانہیں تیرا جو درد دل میں ہے کیسے کہوں عطا نہیں رہتاہے تجھ سے بے خبر جس پہ تری عطا نہیں نالۂ ہجر پر مرے زاہد نہ ہو تو خندہ زن عشق کے درد سے تجھے پالا ابھی پڑا نہیں جس کو گرا ہوا تو دیکھ دنیا کے مال و زر پرآہ اخترؔ سمجھ کہ عشقِ حق اس کو ابھی ملا نہیں