معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
اسطوانۂ حنانہ نے کہا: میں وہ چاہتاہوں جو ہمیشہ رہنے والی نعمت ہو۔ اب مولانا نصیحت فرماتے ہیں کہ اے غافلو!سن لوتم کو اس لکڑی سے سبق لینا چاہیے کہ انسان ہوکر تم دنیائے فانی پرگرویدہ اورآخرت سے روگرداں ہورہے ہو اور وہ استن حنانہ نعمتِ دائمی کو نعمتِ فانی پر ترجیح دے رہاہے۔ آں ستوں را دفن کرد اندر زمین تا چو مردم حشر گردد یومِ دیں پھر اس اسطوانۂ حنانہ کو زمین میں دفن کردیاگیا تاکہ مثلِ انسانوں کے روزِ جزا اس کا حشرہو۔ فائدہ:اسطوانۂ حنّانہ کارونا جب کہ وہ لکڑی کا ستون تھایہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا۔حکایت معجزۂ سنگریزہ ایک بار ابوجہل نے اپنے کفِ دست میں کچھ کنکریاں چھپاکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اگرآپ خداکے سچے رسول ہیں تو بتائیے کہ میرے ہاتھ میں کیا ہے ۔ آپ تو آسمانوں کی خبردیتے ہیں۔ پس میرے ہاتھ کی خبردینا توآپ کے لیے معمولی بات ہوگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ میں بتادوں کہ تیرے ہاتھ میں کیا ہے یامیرے حکم سے تیرے ہاتھ کی چیزیں خود بتادیں کہ میں کون ہوں۔ اس نے کہاکہ دونوں ہی باتیں چاہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:تیرے ہاتھ میں چھ سنگریزے ہیں، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے اس کے ہاتھ کا ہر پتھرکلمۂ شہادت پڑھنے لگا، جب ابوجہل نے سنگ پاروں سے یہ بات سنی توان کنکریوں کو غصّے سے زمین پر دے مارا۔ چوں شنید از سنگہا بوجہل ایں زد ز خشم آں سنگہا را بر زمیں