معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
سامعین میں اگر تشنگی و طلب ہوتو واعظ اگر مردہ بھی ہوتوزندہ ہوجاتاہے یعنی اگر مضامین کی آمد نہ ہو رہی ہوتو ہونے لگتی ہے۔ ہرچہ را خوب و خوش و زیبا کند از برائے دیدۂ بینا کند جو شخص زیبایش اور آرایش کرتاہے وہ اندھوں کے لیے نہیں کرتادیدۂ بینا کے لیے کرتاہے۔ جوشِ نطق از دل نشانِ دوستی ست بستگیٔ نطق ا ز بے الفتی ست کسی سے مل کر گویائی کا تقاضا اندر سے اٹھنا علامت باطنی و قلبی تعلق و دوستی کی ہے اور گویائی میں رکاوٹ پیدا ہونا علامتِ بے الفتی ہے جیساکہ بعض طالبین کی مناسبت سے عجیب مضامین حق تعالیٰ بیان کرادیتے ہیں اور بعض کی عدمِ مناسبت سےزبان بند بندسی اور مضامین کی آمد رکی رکی سی معلوم ہوتی ہے، اس وقت تکلف ہی سے کچھ بولنا ممکن ہوتاہے مگر بے کیف ہوتاہے۔اجتناب از صوفیانِ مزوّر(نقلی) اے بسا ابلیس آدم روئے ہست پس بہر دستے نباید داد د ست اے لوگو! بہت سے ابلیس خصلت صوفیوں کی شکل میں موجود ہیں اس لیے ہرہاتھ میں ہاتھ جلدی سے نہ دے دینا چاہیے۔ حرف ِدرویشاں بد زدد مردِ دوں تا بخواند بر سلیمے زاں فسوں کبھی کمینے لوگ بھی بزرگوں کی باتیں اورچندحروف چرالیتے ہیں یعنی یاد کرلیتے ہیں تاکہ اس طرح عوام طالبین کو دھوکا دیں اور اپنااُلّوسیدھاکریں۔