معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
بوئے گل از خار پیدا می کند نور را از نار پیدا می کند و ہ خدائے پاک صاحبِ قدرۃِ کاملہ کانٹوں سے خوشبوئے گل پیدا کرتا ہے یعنی بُروں کو نیکوں کے صفات عطا فرماتاہے اور نارِ شہوات سے نورِ تقویٰ پیدا کرتاہے یعنی اپنی عطائے کرم سے توفیقِ تقویٰ بخشتاہے جس سے شہوت کی آگ نور بن جاتی ہے مجاہدات کی برکت سے۔ گر کسے را شاہِ بازے می کند ضال را بر شاہراہے می کند اور وہ صاحبِ قدرۃ کاملہ اللہ کرگس کو شاہ بازی عطا کرتاہے یعنی گندے اور گناہ گار کو اخلاق واعمالِ حسنہ کی توفیق بخشتاہے اور گمراہ کو صراطِ مستقیم عطا کرتاہے۔ می نگیرد با زِ شہ جز شیرِ نر کر گساں بر مردگاں بکشادہ پر اور حق تعالیٰ کی توفیق سے یہ شاہ باز معنوی یعنی جانبازِ الٰہی بجز ذاتِ حق کے کسی اور ماسویٰ کی طرف رُخ نہیں کرتا یعنی اس کا نعرہ: لَامَعْبُوْدَ اِلَّا اللہُ۔لَامَقْصُوْدَ اِلَّا اللہُ ہوتاہے اور کرگس خصلت والے یعنی پرستارانِ دنیا اسی مرداردنیا پر حرص کا پَرکھولے ہوئے منہ کے بل گرے ہوئے ہیں اور شاہ باز جنگل میں چیتوں اورہرن وغیرہ تمام شکاروں سے صرفِ نظر کرتاہے اور ان کو بے قدر سمجھتاہوا صرف شَیرِ نر کا شکار کرتاہے اپنی عالی حوصلگی کے سبب۔ اسی طرح اللہ والے اپنی عالی حوصلگی کے سبب اس جہان کی تمام چیزوں سے صرفِ نظرکرتے ہوئے ہفت افلاک سے آگے بڑھ کر صاحبِ عرش سے رابطہ قائم کرتے ہیں۔وَلَنِعْمَ مَاقَالَ الشَّاعِرُ ؎ کبھی کبھی تو اسی ایک مشتِ خاک کے گرد طواف کرتے ہوئے ہفت آسماں گزرے عجب کیا جو مجھے عالم بایں وسعت بھی زنداں تھا میں وحشی بھی تو وہ ہوں لامکاں جس کا بیاباں تھا