معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
مدتے بر بابِ حق نالیدۂ بابِ رحمت مدتے کو بیدۂ اور طویل مدت تونے حق تعالیٰ کے دروازے پر اپنی نجات اور اصلاح کے لیے نالہ کیاہے اور تو مدتوں اس کی رحمت کے دروازے کو کھٹکھٹاتارہاہے۔ بر درِ حق مدتے زا ریدۂ اشکہائے خونِ دل باریدۂ تو دروازۂ رحمتِ حق پر مدتوں روتارہاہے اور اپنے آنسوؤں میں اپنے دل کا خون بھی تونے برسایاہے۔ در گہش چوں شد قبول ایں آہِ تو ایں کرم ہم در رسید از شاہِ تو اس کی بارگاہ میں جب تیری آہ قبول ہوگئی تو یہ کرم تیرے شاہِ حقیقی نے تجھ پر کیا۔ یا فتیٰ نفحات اللّٰہ الصمد در دلِ خود از کرم بے رنج و کد کہ تونے حق تعالیٰ کی رحمتوں کے جھونکے (نسیمِ کرم) اپنے قلب و روح پر محسوس کیے بدون کسی تعب و مشقت کے۔ شد شبِ دیجورِ تو رشکِ سحر آ فتابش کر د در کویت گزر اور تیری شبِ تاریک نورِ حق سے روشن ہوکر رشکِ سحر بن گئی اور اس مالکِ حقیقی کا آفتابِ کرم تیرے قلب میں طلوع ہوگیا۔ اے ز لطفش روح از طوفاں رہید ناؤِ تو از لطفِ بر جودی رسید اور اے مخاطب! اس مالکِ حقیقی کے کرم سے تیری روح طوفان سے نجات پاگئی اور تیری ناؤ اس کے لطف سے جودی پہاڑ پر بسلامت جالگی ۔ یعنی مجاہداتِ شاقہ کا ثمرہ قربِ حق عطا ہوا اور احکاماتِ حق کا امتثال عادتِ ثانیہ بن گیا۔