معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
بوئے خوش از غنچہ کے آمد بروں تا نہ شد پیشِ نسیمے سرنگوں غنچہ (کلی) سے خوشبو کب ظاہر ہوتی ہے جب نسیمِ سحر اس کو چھوتی ہے۔ یعنی اس کی صحبت سے اس کی اندرونی صلاحیت روشن ہوتی ہے۔ جانِ تو چو غنچہ اے طالب بداں اندرونش دردِ حق دارد نہاں اے طالب! تیری روح بھی مثلِ غنچہ کے ہے اور تیرے اندر حق تعالیٰ کی محبت کا درد پنہاں ہے۔ چوں بگیری صحبتِ اہلِ نظر غنچہ بکشاید نسیمِ آں سحر جب کسی اہل اللہ کی صحبت میں اپنے کو سپرد کرے گا تو وہ اہل اللہ مثل نسیمِ سحر تیری کلی کو شگفتہ کردے گا اور وہ پنہاں درد ظاہر ہوجاوے گا ؎ دل ازل سے تھا کوئی آج کا شیدائی ہے تھی جو اک چوٹ پرانی وہ ابھر آئی ہے گر نگیری از تغافل راہ بر کے شوی از غنچہ تو گلہائے تر اگر کسی راہ بر کا دامن نہ پکڑا تو تیری کلی ہمیشہ ناشگفتہ رہے گی او ر تو گلِ تر نہ بن سکے گا۔ عمرِ تو گر بے رفیقے شد تمام ایں ہلالِ تو نہ شد ماہِ تمام تیری عمر اگر بے رفیق اور بے شیخ کے گزر گئی تو تیرے دین کا ہلال ماہِ کامل نہ بن سکے گا۔ صد عمل صد علم گر داری نہاں بے رفیقے می شوی از گمرہاں