معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
سینکڑوں عمل اور سینکڑوں علم اگر تو اپنے اندر مخفی رکھتاہے مگر بے رفیق اور بے شیخ تو پھر بھی گمراہ ہی رہے گا یعنی خدا تک واصل نہ ہوگا اور نفس کے رذائل سے بچ نہ سکے گا۔ غنچہ را ایں کرّوفر در انجمن ہست از فیضِ نسیمے در چمن غنچہ (کلی) شگفتہ ہوکر جب پھول بن جاتی ہے تو محفل میں اس کی قدر و منزلت اور شان و شوکت دراصل اسی نسیم ہی کے فیض کا صدقہ ہوتاہے جو چمن میں اسے حاصل ہوا تھا اور جس کی صحبت نے اس کو غنچہ سے گل کیا تھا۔ جملہ ایں اشعارِ ما پُر درد و نور تو بداں از فیضِ شاہ پھولپور جملہ یہ ہمارے اشعار جو درد اور نور سے بھرے ہوئے ہیں، اے مخاطب!سمجھ لے کہ یہ سب حضرت شاہ عبد الغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ کا فیض ہے۔ شاہِ ما عبد الغنیؒ شمسِ منیر ہست زو جانم چو ماہِ مستنیر وہ سلطان العارفین جو میرے شاہ عبد الغنی، میرے مرشد ہیں وہ مثلِ روشن آفتاب کے ہیں اور اس فقیر محمد اخترؔ(رحمہ اللہ تعالیٰ)کی جان مثل ماہِ مستنیر کے ہے یعنی جس طرح چاند کی روشنی ذاتی نہیں آفتاب کے نورکا عکس ہوتاہے اسی طرح ہماری کوئی خوبی نہیں یہ سب ہمارے شیخ کے انوارِ روحانی کے عکوس ہیں۔ فائدہ: جب بھی سالک اور طالبِ حق کسی انعام اور رحمتِ الٰہیہ سے مالامال ہو اور مخلوق میں اس کی طرف خلق کا رجوع ہو تو اس کو شیخ کے فیوض و برکات ہی کا صدقہ سمجھنا چاہیے جس نے اس کلی کو پھول بنایا ہے اپنا کوئی کمال نہ سمجھنا چاہیے ؎ کہاں میں اور کہاں یہ نکہتِ گل نسیمِ صبح تیری مہر بانی حضرت اقدس پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا تھاکہ اس کو یوں ترمیم کرلو ؎