معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
بدنگا ہے کے شود یار خدا ہست تقویٰ شرطِ دربارِ خدا بدنگاہی کرنے والا اللہ کا دوست نہیں ہوسکتا ہے کیوں کہ حق تعالیٰ نے اپنی دوستی کے لیے تقویٰ کو شرط ٹھہرایاہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہماراولی کوئی نہیں بجز متقی بندوں کے۔ بد نگا ہے نیست درباریِٔ حق ہست تقویٰ شرطِ در یاریِٔ حق بدنگاہی کرنے والا حق تعالیٰ کا درباری نہیں ہوسکتا کیوں کہ ان کے دربار کے لیے تقویٰ شرط ہے۔ فاسقی را عاشقی نامش دہی خویش را تو خود فریبے می دہی اے شخص! تو بدنگاہی کرتاہے اور نافرمانی کا نام عشق رکھتاہے پس تو اپنے کو دھوکا دے رہاہے کہ فسق کو عشق سمجھتاہے۔ مشرقے را نام گر مغرب دہی تو بمغرب کے رسی زیں ابلہی مشرق کا نام مغرب رکھنے سے کیا تو اس بیوقوفی سے مغرب کی طرف پہنچ سکتاہے؟ در شریعت بدنگاہی فسق شد پس چرا فسقِ تو پیشت عشق شد )جب شریعت میں بدنگاہی کو فسق قرار دیاگیا تو کیوں یہ فسق تیری نظر میں عشق بن رہاہے ۔ فاسقے از اولیاء اللہ نہ شد تا نہ پاک از عشقِ غیر اللہ نہ شد کوئی فاسق اولیاء اللہ نہیں ہوسکتاہے پس اس فعلِ بدنگاہی سے اے سالک! توبہ ضروری ہے۔ جب تک غیر اللہ سے دل پاک نہ ہوگا، اللہ کا ولی نہیں ہوسکتا۔