معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
عجب کی بیماری سالک کو لومڑی اور گدھا بنادیتی ہے یعنی بزدل اور بے وقوف کردیتی ہے اگرچہ بہت ہی باہمت شیرِ نر کی طرح ہو۔ الغیاث از عجب اے ربِّ کریم تا نگردد دینِ ما ہمچو یتیم اے ربِّ کریم! ہم پناہ مانگتے ہیں عجب سے تاکہ اس خطرناک بیماری سے ہمارا دین مثل یتیم نہ ہو یعنی آپ کی رحمت کے سائے سے ہم محروم نہ ہوجاویں۔ زانکہ معجب را ز خود وابستگی در ضلالت شد سبب افگندگی اس لیے کہ عجب میں مبتلا اپنی ذات سے وابستہ اور حق تعالیٰ سے دور رفتہ گمراہی میں جاگرتاہے۔ ناظرِ حق مستحق رحمت شود ناظرِ خود دور از رحمت بُوَد جو بندہ حق تعالیٰ کی صفات پر نظر رکھتاہے وہ مستحّقِ رحمت ہوتاہے اور جو اپنی صفتوں کو دیکھتارہتاہے وہ رحمت سے دور ہوجاتاہے۔ ہمچنیں عاشق کہ معشو قے بدید پیشِ آں معشوق روئے خود بدید جس طرح کوئی عاشق اپنے محبوب کے پاس ہو او ر بجائے محبوب کے حسن و جمال کے اپنے ہی چہرے کو شیشے میں دیکھ رہاہو۔ پس چرا غیرت نہ آید دلبراں ہمچنیں عشاق را چو خر براں پس ایسے عاشق سے محبوب کو غیرت کیوں نہ آوے گی اور مثل گدھے کے ایسے عاشقوں کو راہِ عشق سے ہانک دینا چاہیے۔