معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
دید روئے جز تو شد غل گلو کُلُّ شَیٍٔ مَاسِوَی اللہ بَاطِلٗ آپ کے علاوہ کسی چیز کی طرف رخ کرنا گردن میں مصیبت کا طوق ڈالنا ہے کیوں کہ آپ کے سوا ہر شے فانی اور لاشے ہے۔ یعنی آپ سے تعلق کا ثمرہ اطمینانِ قلب اور سکونِ روح ہے یہ تو غیر فانی ہے کہ آپ کی ذاتِ پاک باقی ہے اور آپ کے سوا کسی سے دل لگانا اور سکون حاصل کرنا چوں کہ محلِ فنا سے دل لگانا ہے پس وہ باعثِ تشویش ہوگا کیوں کہ سکون بالفانی بھی فانی ہوتا ہے۔ نوٹ: ماسویٰ سے مراد وہ ماسویٰ ہے جو بالکل ہی غیر اللہ ہے اور ذریعۂ مقصودِ حق بننے کی صلاحیت بھی نہ رکھتاہو ورنہ جو چیزیں مقصودِ حقیقی کا ذریعہ اور وسیلہ بن سکتی ہیں ان سے تعلق اللہ ہی کا تعلق ہے اور ان کی طرف استفادہ کے لیے متوجہ ہونا استفادہ باللہ ہی ہے اسی طرح اہل و عیال کے حقوق، پڑوسی کے حقوق حتیٰ کہ جانوروں کے حقوق سب اسی ذریعۂ مقصود میں داخل ہیں کیوں کہ ان کو رضائے الٰہی میں دخل ہے۔ خلاصہ یہ کہ میاں کی رضا اور ناراضگی کے جملہ مواقع اور متعلقات اور ان میں حدودِالٰہیہ کا تحفظ اور نگہداشت سب عینِ دین ہے۔ البتہ یہ تعلقات مغلوب اور ضمنی ہوں اور اللہ تعالیٰ کا تعلق غالب اور اصل ہو۔ باطلند و می نمایندم رشد زانکہ باطل باطلاں را می کشد یہ جو آپ کے غیر ہیں مجھے غلط بینی نگاہ سے جذب و کشش میں صواب اور اپنے معلوم ہوتے ہیں،اس کی وجہ یہ ہے کہ باطل، باطل کو کھینچتاہے یعنی ہمارے اندر نفس امارہ بالسوء ہے اور اس میں مادۂ فجور موجود ہے جو مواقع اور اسبابِ فجور سے حرکت میں آجاتاہے جیسا کہ میلانِ معصیت اجنبیہ یا امرد کے قرب سے زیادہ ہوجاتاہے بہ نسبت اس کے کہ ان سے دوری اختیار کی جاوے۔