معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
تشریح: رفیقِ شب سے مراد وہ رفاقت ہے جو اہل اللہ کو نصفِ شب کے بعد نمازِ تہجد اور مناجات و گریہ و زاری میں عطا ہوتی ہے، جدائی کے دن سے جو پناہ طلب کی ہے اس سے مراد دن کے اعمال کی حفاظت ہے یعنی دن میں ہم سے ایسے اعمال صادر نہ ہوں جو آپ سے بُعد اور دوری کا سبب بن جاویں۔ بُعدِ تو مر گیست با درد و نکال خاصہ بعدے کاں بُود بعد الوصال ترجمہ: آپ کا بُعد ایک موت ہے جو دردِ عقوبت کے ساتھ مقرون ہے خاص کروہ بُعد جو بعد وصال کے ہو۔ تشریح:اے اللہ! آپ کی دوری تو خود موت ہے یعنی زندگی آپ کے تعلق سے زندگی کا صحیح مصداق بنتی ہے: کَمَاقَالَ اللہُ تَعَالیٰ: اَوَ مَنۡ کَانَ مَیۡتًا فَاَحۡیَیۡنٰہُ؎ یہ آیت حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی شان میں نازل ہوئی ہے جس وقت کہ آپ ایمان سے مشرف نہ ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ کیا وہ شخص جو مردہ تھا پس ہم نے زندہ کردیا ایمانی حیات سے چوں کہ کفر میں بُعد اور دوری کی کامل خاصیت ہوتی ہے اس لیے اس دوری کو موت قرار دیا۔ پس معلوم ہوا کہ اللہ سے دوری خود ایک موت ہے لیکن یہ اس وقت ہے جب کہ قربِ الٰہی نہ دیکھا ہو اور اگر قرب کا کرّوفردیکھ لیا تو نور کے بعد ظلمت کا ادراک نہایت قوی ہوتاہے، یہی وجہ ہے کہ جو لوگ اہل اللہ سے تعلق رکھتے ہیں اور ذکر کا اہتمام رکھتے ہیں ان سے اگر خطا کا ارتکاب ہوجاتاہے تو انھیں معصیت کی ظلمت کا احساس بہت قوی ہوتاہے برعکس غافلانِ آخرت کے کہ ظلمت پر ظلمت کا طریان غیر محسوس اور غیر شعوری ہوجاتاہے۔ اسی کو مولانا فرماتے ہیں: وصال کے بعد کا فراق زیادہ مولم اور باعثِ صدمہ ہوتاہے۔نَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الْحَوْرِ بَعْدَ الْکَوْرِ۔ ------------------------------