معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
کی صفت ہے جو مرادف ہے نفسِ امارہ کے اس جگہ اور نفس قرینۂ مقام سے محذوف منوی ہے۔ من کہ باشم چرخ با صد کاروبار زیں کمیں فریاد کرد از اختیار اور میں کون ہوں یعنی میری کیا حقیقت ہے اس امتحانِ اختیار سے تو آسمان اس قدر شان وشوکت اور عظمت الخلقت ہونے کے باوجود فریاد کرچکاہے۔ اشارہ ہے حق تعالیٰ کے اس حکمِ پاک کی طرف جب آسمان و زمین کو بارِ شریعت دینے کا اعلان فرمایا گیا تو زمین و آسمان نے اس بار کے اٹھانے سے پناہ مانگی اور یہ پناہ طلب کرنا بوجہ خوف عدمِ تحمل اور اقرارِ عجز و ضعف کے تھا لیکن حضرت انسان نے اس بار کو اٹھالیا اور یہ بار کا اٹھانابوجہ اس فطرتِ انسانیت کے تھا جس میں عشق کا مادہ پنہاں تھا۔ حضرت خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے خوب فرمایا ؎ کہیں کون و مکاں میں جو نہ رکھی جا سکی اے دل غضب دیکھا وہ چنگاری مری مٹی میں شامل کی جذب یکراہہ صراطِ مستقیم بہہ ز دو راہہ تردد اے کریم اے ہمارے رب! ہم کو ہمارے نفس کے حوالہ نہ فرمائیے کہ وہ اپنی فطرۃ امارہ بالسوء کے سبب اختیار خیر و شر میں شر کی طرف جلد مائل ہوجاتاہے اور ہم ضعیف ہیں ہمت اور ارادے کے اعتبار سے مغلوب ہوجاتے ہیں پس آپ صراطِ مستقیم کی طرف اگر جذب فرمالیں تو اے کریم! میرے لیے اختیار بین الامرین کے تردد اور غم اور اس ذلت اور رسوائی سے جو مغلوبیت کے نتیجہ میں پیش آتی ہے بہتر ہو۔ زیں دو رہ گرچہ ہمہ مقصد توئی لیک خود جاں کندن آمد ایں دوئی