معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
فضلِ سلطانی سے میرا کام بن سکتاہے۔ چنانچہ دنیا میں بھی جب ملزم آخری عدالت (سپریم کورٹ) سے بھی بری نہیں ہوتا اور پھانسی کا حکم ہوجاتاہے تو ملزم قانون سے مایوس ہو کر سلطانِ وقت سے رحم کی درخواست کرتاہے اور اخباروں کی سرخیوں میں یہ عبارت سب کو نظر آتی ہے کہ ملزم نے عدلیہ سے مایوس ہو کر صدرِ مملکت سے رحم کی اپیل کردی۔ چوں کہ دنیا آخرت کا نمونہ ہے ، جیساکہ حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے حق سبحانہٗ تعالیٰ سے بادشاہی کن کے سوال سے رحمِ سلطانی (مراحمِ خسروانہ) کی بھیک مانگی ہے۔ اور جب دنیا کے سلاطین مجرمین کو معاف کرنے کے لیے اپنا سلطانی حق عدلیہ سے بالاتر ہو کر محفوظ رکھتے ہیں تو وہ: اَکْرَمُ الْمُکْرَمِیْنَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ اَحْکَمُ الْحَاکِمِیْنَ سُلْطَانُ السَّلَاطِیْن بدرجۂ اولیٰ اس رحمِ سلطانی کا اپنے مجرمین اور گناہ گار بندوں کی رہائی اور معافی کے لیے اپنا حق محفوظ رکھنے کا اہل ہے: سُبْحَانَ اللہِ وَ تَعَالٰی اللہُ عُلُوًّا کَبِیْرًا اس ناکارہ عبد اختر(رحمہ اللہ تعالیٰ) کو بھی اسی سلطانی رحم کا سہارا ہے کہ ہمارے اعمال ہماری مغفرت کے قابل نہیں۔ اے اللہ! آپ اس عبد کو اپنے مراحمِ خسروانہ سے میدانِ محشر میں رہا اور معاف فرمائیو۔آمین۔ یَارَبَّ الْعَالَمِیْنَ بِحَقِّ نَبِیِّکَ نَبِیِّ الرَّحْمَۃِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ یہ خاص شرح وہ شرح ہے کہ حق تعالیٰ نے اس عبدِ اختر (رحمہ اللہ تعالیٰ) کو اس کے لیے مخصوص فرمایا:ذٰلِکَ مِمَّاخَصَّنِیَ اللہُ تَعَالٰی بِفَضْلِہٖ وَ رَحْمَتِہٖ۔ توبہ ام بپذیر ایں بارِ دگر تا بہ بندم بہرِ توبہ صد کمر اے اللہ! میری توبہ کو اس دوسری مرتبہ پھر قبول فرمالیجیے تاکہ میں اس دفعہ توبۂ صادقہ اور اس پر استقامت کے لیے سو کمر باندھ لوں یعنی بہت ہی مضبوط ارادہ و عہد کرلوں۔