معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
چوں کہ عوام اس حقیقت سے یعنی مسبّبِ حقیقی کے تصرفات سے بے خبر ہیں ۔اس لیے اسبابِ دنیویہ کے اختیار کی محنت اور مشقت سے صبح و شام آسودہ نہیں ہوتے۔ خرّم آنکہ عجز و حیرت قوتِ اوست در دو عالم خفتہ اندر ظلِّ دوست مبارک ہے وہ شخص جس کی غذا عجزِ محمود اور حیرتِ محمودہ ہے یعنی جس کی تدابیر اور اسباب کے تخلف فی الآثار سے مسبّبِ حقیقی کی معرفت نصیب ہوگئی، تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ جب اسباب اور تدابیر کو کبھی کامیاب اور کبھی ناکام دیکھا تو تفکر سے سمجھ گئے کہ یہ ناکامی دلیل ہے کہ یہ اسباب اثر اور کامیابی میں بالذات مؤثر نہیں بلکہ محتاج ہیں مؤثرِ حقیقی اور مسبّبِ حقیقی اللہ تعالیٰ شانہٗ کے۔ جب چاہتے ہیں اثر پیدا کردیتے ہیں جب چاہتے ہیں بے اثر کردیتے ہیں۔ کارِ دنیا را ز کل کاہل تر اند کارِعقبیٰ را ز مہ گو می برند اہلِ دنیا کی مذموم کاہلی اور اہلِ آخرت کی محمود کاہلی کا فر ق ایک اور مولانابیان فرماتے ہیں کہ اہلِ آخرت دنیا کے کاموںمیں تو کاہل نظر آتے ہیں مگر آخرت کے کاموں میں چاند سے بھی سبقت لے جاتے ہیں۔ یعنی ان کے عالی حوصلے عزائم کی جو طاقت اتباع احکامِ خداوندی اور اجتنابِ معاصی میں مشاہد ہوتی ہے اہلِ دنیا اس کے تصور سے بھی محوِ حیرت ہیں، در حقیقت اعمال کا تعلق یقین پر ہوتاہے، اہلِ دنیا کو دنیا پر یقین ہے اس لیے اس یقین کی سرگرمی ان کو سرگرم اعمالِ دنیا رکھتی ہے اور اہلِ آخرت کو آخرت پر یقین ہے اس لیے ان کی سرگرمی اعمالِ آخرت میں نظر آتی ہے پھر یہ دونوں سرگرمیاں موت کے وقت فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوجاتی ہیں اور دونوں فریق اپنی کامیابی اور ناکامی کاانجام سامنے دیکھ لیتے ہیں۔