معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
امتحان نہ کیجیے یعنی ہمارے نفس کے حوالے ہم کو نہ کیجیے۔ تا فضیحتہائے دیگر را نہاں کردہ باشی اے کریمِ مستعاں یہاں تک کہ ہماری دوسری پوشیدہ رسوائیوں کو جو مستقبل میں ظاہر ہونے والی ہیں اور ابھی مخفی اور مستور ہیں ان کو اے مستعان و کریم!اپنے کرم سے ظاہر نہ ہونے دیجیے اور اسی طرح پردۂ ستاریت میں چھپائے رکھیے۔ بے حدی تو در جلال و در کمال در کثری ما بے حدیم و در ضلال آپ جلالتِ شان اور کمال میں غیر متناہی شان رکھتے ہیں اور ہم گمراہی اور کجی( ٹیڑھے پن) میں انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں، دوسرے مصرعے میں بندوں کی بے حدی و لامتناہی سے مراد مبالغہ فی الرذائل ہے۔ بے حدی خویش بگمار اے کریم بر کثری بے حد مشتے لئیم اے کریم! اپنی غیر متناہی صفاتِ کرم و اصلاح کو ہم بالشتیے کمینوں کی کجی اور گمراہی پر مسلّط اور مقرر فرمادیجیے۔ ہیں کہ از تقطیعِ ما یک تار ماند مصر بودیم و یکے دیوار ماند اے خدا! فریاد کہ نفس و شیطان نے ہمارے دین کے ٹکڑے ٹکڑے اس طرح کردیے کہ صرف ایک تار باقی رہ گیا اور دین میں ہم مثل شہر کے تھے یعنی اجزائے دین کے اعتبار سے طویل و عریض تھے مگر اب منہدم ہوتے ہوتے صرف ایک دیوار رہ گئے۔ البقیہ البقیہ اے خدیو تا نگردد شادِ کلّی جانِ دیو