معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
ہم اپنی طاقت و ارادہ کے ضعف و عجز کے مشاہدے کے بعد آپ ہی کی طرف مدد کے لیے رجوع کرتے ہیں اور ایسا کیوں نہ کریں جب کہ آپ ہماری جان سے بھی زیادہ ہم سے قریب تر ہیں اور عقلی و طبعی قاعدے سے اپنے قریب تر ہی سے انسان کا استمداد و فریاد کرنا مشاہدے میں بھی ہے۔ ایں دعا ہم بخشش و تعلیمِ تست ورنہ درگلخن گلستاں از چہ رست یہ دعا بھی آپ ہی کی بخشش اور تعلیم کا ثمرہ ہے ورنہ گلخن یعنی نفس کے آتشکدۂ خواہشات میں گلستان کہاں سے نظر آتا۔ عہد ما بشکست صدبار و ہزار عہدِ تو چوں کوہ ثابت بر قرار اے اللہ! ہمارے عہد سینکڑوں اور ہزار بار ٹوٹ چکے۔ (مراد عہد سے عہدِ توبہ ہے یا عہد اہتمامِ اعمال و دوامِ ذکرونحو ذالک) اور آپ کے عہد اور وعدے مثل پہاڑ کے ثابت و برقرار ہیں یہاں مشبہ( عہدِ الٰہی) کی شان سے مشبہ بہ (پہاڑ) کوئی نسبت نہیں رکھتا لیکن یہ مثال محض تفہیم کے لیے مولانا نے استعمال کی ہے کہ دنیا میں پہاڑ کا اپنی جگہ سے نہ ٹلنا عام طور سے ضرب المثل ہے۔ عہد ما کاہ و بہر بادے زبوں عہدِ تو کوہ و ز صد کہہ ہم فزوں ہمارا عہد ایک تنکا اور ہوا سے بھی کمزور اور بودہ ہے اور اے اللہ! آپ کا عہد پہاڑ اور سینکڑوں پہاڑوں سے بھی زیادہ مضبوط ہے ؎ خویش را دیدیم و رسوائی خویش امتحانِ ما مکن اے شاہ بیش اے اللہ! ہم نے اپنی رسوائیاں اور ذلتیں بارہا دیکھ لیں عہد شکنی اور توبہ شکنی سے اپنی مغلوبیت اور نفس کی غالبیت سے اپنی ذلت کا مشاہدہ کرلیا، اے شاہِ حقیقی! اب مزید ہمارا