معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
ور تو ماہ و مہر را گوئی خفا ور تو قدِ سر و را گوئی دوتا ور تو چرخ و عرش را گوئی حقیر ور تو کان و بحر را گوئی فقیر آں بہ نسبت با کمالِ تو روا ست ملک و اقبال و غناہا مر تر است اگر آپ چاند اور سورج کی روشنی کو حقارت سے طعنۂ خفا دیں اور اگر آپ قدِسرو کو (کہ حسن پرست اپنے معشوقوں کے قد کو اس سے تشبیہ دیتے ہیں) عیب دار اور منحنی قرار دیں اور اگر آپ آسمان اور عرش جیسی عظیم مخلوق کو حقیر قرار دیں اور اگر آپ کان اور سمندر کو فقیر فرمادیں تو یہ سب کچھ آپ کے کمال کے پیشِ نظر آپ کو زیبا ہے کہ ملک و سلطنت اور اقبال مندی و غنا آپ ہی کے لیے خاص ہے۔ تو عصا کش ہر کرا کہ زندگی ست بے عصا و بے عصا کش کور چیست اے اللہ! اہلِ بصیرت حضرات جو ایمانی حیاتِ سے حیاتِ حقیقی پا چکے ہیں آپ تو ان کے لیے بھی ہروقت ہدایت کے راستے کھولتے رہتے ہیں اور ان کو بھی ان کے نفس کے حوالے نہیں فرماتے اور اسی احتیاج کے پیشِ نظر وہ : یَاحَیُّ یَاقَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ اَصْلِحْ لِیْ شَاْنِیْ کُلَّہٗ وَلَا تَکِلْنِیْ اِلٰی نَفْسِیْ طَرْفَۃَ عَیْنٍ؎ کی فریادآپ سے کرتے رہتے ہیں۔ ترجمہ: اے زندہ حقیقی اور اے سنبھالنے والے اللہ! آپ ہی کی رحمت سے فریادکرتاہوں کہ مجھے میرے نفس کے سپرد ایک لمحے کو بھی نہ ------------------------------