معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
فرمائیے اور میری ہرحالت کی اصلاح فرماتے رہیے۔ پس جب اہلِ بصیرت اور اہلِ صلاح و تقویٰ بھی آپ کی عصا کشی یعنی راہ بری و ہدایت کے ہمہ وقت محتاج ہیں تو جو بے عصا ہیں اور بے عصا کش ہیں یعنی خود بھی راہ سے بے خبر ہیں اور راہ بر سے بھی محروم ہیں ایسے اندھوں کی کیاحقیقت ہے کہ آپ کی ہدایت کے وہ محتاج نہ ہوں۔ غیرِ تو ہرچہ خوش است و ناخوش ست آدمی سوزست و عینِ آتش ست اے اللہ! آپ کے سوا جو چیزیں بھی ہیں خواہ ہمارے ذوق میں وہ اچھی ہوں یا بری، وہ سب آدمی سوز ہیں یعنی انسانیت کے محور سے ہٹانے والی ہیں اور عینِ آتش ہیں، تباہ کاری ہیں۔ کیوں کہ ہماری جانوں کے اور تمام کائنات کے مرکز تو آپ ہی ہیں پس آپ کو چھوڑ کر اور غیر کے ہوکر ہم نہ چین و سکون سے جی سکتے ہیں اور نہ مرہی کے چین پاسکتے ہیں ؎ اب تو گھبراکے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے مرکے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے کُلُّ شَیْئٍ مَّا خَلَا اللہَ بَاطِلٗ اِنَّ فَضْلَ اللہِ غَیْمٌ ھَاطِلٗ ہر شے جو حق تعالیٰ شانہٗ کے ماسوا ہے یعنی نہ مقصودِحق ہے اور نہ ذریعۂ مقصودِ حق ہے پس وہ باطل ہے اور اللہ تعالیٰ کا فضل موسلا دھار برسنے والا ابر ہے۔ اے خدائے پاک بے انباز و یار دستگیر و جرمِ مارا در گزار اے خدا !تو پاک اور لَاشَرِیْکَ لَک ہے، ہماری مدد فرما اور ہمارے جرم کو معاف فرما۔ گر خطا گفتیم اصلاحش تو کن مصلحی تو اے تو سلطانِ سخن