معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
اے دریغا اشکِ من دریا بُدے تا نثارِ دلبرِ زیبا شدے کاش کہ میرے آنسو دریا ہوجاتے اور محبوبِ حقیقی پر قربان ہوجاتے ؎ محبت میں ایک ایسا وقت بھی دل پر گزرتاہے کہ آنسو خشک ہوجاتے ہیں طغیانی نہیں جاتی ہر کجا بینی تو خوں بر خا کہا پس یقیں میداں کہ آں از چشمِ ما حضرت عارف رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جہاں بھی روئے زمین پر خون کے قطرات ٹپکے ہوئے دیکھو یقین کرلو کہ وہ ہماری ہی آنکھوں سے گرے ہیں۔ عاشقم من بر فنِ دیوانگی سیرم از فرہنگ و از فرزانگی مولانا فرماتے ہیں کہ میں دیوانگی کے فن پر عاشق ہوں کیوں کہ یہی وہ فن ہے جو محبوبِ حقیقی تک جلد پہنچادیتاہے۔ میں عقل کی باتوں سے بہت سیر ہوچکاہوں۔ کچھ کام نرِی عقل سے بنتا نہیں ہے۔ جیسے وہ ریل کہ اس کے انجن میں بھاپ نہ ہو، بس اپنی جگہ پرکھڑی منزل سے محروم پڑی ہے۔ عشق ومحبت دل کے انجن میں برق رفتاری پیدا کرتے ہیں۔ ایمان کا راستہ بھی شدتِ محبت کو چاہتاہے : وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلہِ؎ جو لوگ ایمان لائے یعنی مؤمنینِ کاملین اللہ تعالیٰ کی محبت میں بڑے ہی سرگرم ہیں حتّٰی کہ جان دینا ، جان لینا سب آسان ہوگیا۔ آزمودم عقلِ دور اندیش را بعد ازیں دیوانہ سازم خویش را ------------------------------