معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
میں نے عقلِ دور اندیش کو ایک عمر آزمایا مگر راستہ محبوبِ حقیقی کا طے نہ ہوسکا اس لیے ہار کر اپنے کو دیوانہ بنالیا اور اب سارے حجابات ختم ہوگئے ؎ نگاہِ عشق تو بے پردہ دیکھتی ہے اسے خرد کے سامنے اب تک حجابِ عالم ہے یہاں تو ایک پیغامِ جنوں پہنچاہے مستوں کو ان ہی سے پوچھیے دنیا کو جو دنیا سمجھتے ہیں یہی محبت کی دولت حاصل کرنے کے لیے حضرت مولاناقاسم صاحب بانیٔ دیوبند رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مولانا رشید احمد صاحب محدث گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مولانا حکیم الامّت اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو باوجود علومِ درسیہ کے سمندر ہونے کے حضرت حاجی امداد اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت میں جانا پڑا اور خود حضرت جلال الدین رومیؔ رحمۃ اللہ علیہ کو غلامِ شمس تبریزی بننا پڑا ؎ مولوی ہرگز نشد مولائے روم تا غلامِ شمس تبریزی نشد بعض اہلِ علم نے ان علمائے کاملین سے سوال کیا کہ آپ حضرات حضرت حاجی صاحب کے پاس کیوں گئے جب کہ آپ کا ہر فرد خود بحر العلوم ہے۔حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ ہم لوگوں نے مدارس میں دین کی مٹھائیوں کی صرف فہرست پڑھی تھی اور حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس کھانے گئے تھے ۔ صرف علومِ ظاہرہ کو کافی سمجھنا ایسا ہی ہے جیسے کہ فہرست میں مٹھائیوں کی اقسام پڑھ لی جاویں، انجام کار یہ ہوتاہے کہ خود بھی بے کیف اور دوسروں کو بھی بے کیف رکھتے ہیں۔ ان سے کیا دین چمکے گا۔ ارے! کچھ دن کسی اللہ والے کی جوتیاں سیدھی کرلو۔ پھر دیکھو کہ ان علوم میں کیسی روح پیدا ہوجاتی ہے جو تمہیں بھی زندہ کردے گی اور بہت سے مردہ قلوب تمھاری صحبت سے حقیقی حیات سے مشرف ہوں گے ؎