معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
بوئے آں دلبر چو پراں می شود ایں زبانہا جملہ حیراں می شود اس محبوبِ حقیقی کی خوشبو جب پراں ہوتی ہے تو تمام زبانیں محوِ حیرت ہوجاتی ہیں ؎ گرچہ تفسیرِ زباں رو شنگر ست لیک عشقِ بے زباں روشن ترست عقل در شرحش چو خر در گل بخفت شرحِ عشق و عاشقی ہم عشق گفت مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تفسیرزبان کی اگرچہ روشن گر ہے لیکن عشق جب شرح کرتاہے تو وہ بے زبان کے اس سے روشن تر شرح کرتاہے۔ مثلًا کوئی عاشق مہجور بحضور محبوب غمِ فراق کی شرح زبان سے کہہ رہاہو اور کوئی عاشق زبان سے کچھ نہ کہے بس آنسو بہانے لگے اور ایک آہ کھینچ لے، محبوب دریافت کرتاہے کہ کچھ زبان سے کہو مگر وہ مسلسل اشک ہائے خون گرائے جاتاہے تو اس عاشق کا یہ طرزِ بیان کہ لب خموش زبان ساکت مگر اس کی اشکباری اور آہِ سرد محبوب کے دل کو ہلاکر رکھ دے گی۔ یہی حال اولیاء اللہ کا ہوتاہے کہ بعض وقت وہ جب حضورِ باری تعالیٰ میں ہاتھ اٹھاتے ہیں تو زبان سے کچھ نہیں نکلتا۔ بس آنسو جاری ہوجاتے ہیں اور آہ نکل جاتی ہے زبان تو ساکت ہے مگر یہ آہ عرشِ الٰہی کو ہلارہی ہے ؎ عرش لرزد از انین المذنبیں جس طرح ماں بچے کے رونے سے کانپنے لگتی ہے غلبۂ رحمت ومحبت سے نالۂ گناہ گار اں سے عرش کانپنے لگتاہے کمالِ رحمت سے۔ ۲)عقل شرح ِمحبت کرتے کرتے عاجز ہوکر مثل گدھے کے کیچڑ میں سوگئی اور عشق نے شرحِ عشق کو کمال تک پہنچادیا، بعض وقت اہل اللہ روتے روتے تھک جاتے ہیں ، آنسوخشک ہوجاتے ہیں مگر ان کو سیری نہیں ہوتی اور ان کے قلب کی طغیانی بزبانِ حال یہ تمنا کرتی ہے ؎