معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
دیوانہ بنادے۔ وہ عقل جو محبتِ کاملہ سے محروم ہو وہ عقل ناقص ہے۔ خود عقل کاکمال موقوف ہے تکمیلِ محبت پر ؎ یا تو خرد کو ہوش کو مست و بیخودی سکھا یا نہ کسی کو ساتھ لے اس کے حریمِ ناز میں نگاہِ عشق تو بے پردہ دیکھتی ہے اسے خرد کے سامنے اب تک حجابِ عالم ہے جمال اس کا چھپائے گی کیا بہارِ چمن گلوں سے چھپ نہ سکی جس کی بوئے پیراہن دنیائے چمن کی رنگینیاں اور بہاریں صرف کفار کوباعثِ حرمان و حجاب ہوگئیں ورنہ اولیاء اللہ کی روحیں حق تعالیٰ کی خوشبو کو ہر وقت نشر کررہی ہیں، ذرا ان کے پاس جاکر تو دیکھو ؎ بنگر ایشاں را کہ مجنوں گشتہ اند ہمچو پروانہ بوصلش کشتہ اند ذرا اولیاء اللہ کی مجالس میں بیٹھ کر تو مشاہدہ کروکہ کیسے اپنے مولیٰ حقیقی کی یاد میں مجنون ہورہے ہیں اور کمالِ قرب سے ان کی روحیں مثل پروانوں کے سوختہ ہوئی جاتی ہیں۔ گلوں سے مراد ارواحِ اولیائے عاشقین ہیں۔ ان کے اقوال سے، اخلاق سے ، اعمال سے ان کی ہر سانس سے اور ہربنِ مو سے اللہ کی خوشبو نشر ہورہی ہے۔ چناں چہ مشاہدات سے یہ امر تسلیم کرنا پڑتاہے کہ بڑے بڑے سلاطین جب کسی اہلِ دل کی صحبت سے عشقِ حقیقی کی لذت اور اس کی خوشبو پاگئے تو پوری کائنات کا جمال ان کی نگاہوں میں ہیچ ہوگیا۔ دنیا خواہ کتنی ہی دلکش بہارِ جمال رکھتی ہے مگر انبیا علیہم السلام اور اولیا کی ارواح سے جب میاں کی خوشبو نشر ہوتی ہے تو اس کی شرح و تفہیم کے لیے الفاظ و لغت اور تمام زبانیں حیران و ششدر ہوجاتی ہیں ؎