معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
دوصد نئے افکار ان کی چاند پر ایسی لات مارتے ہیں کہ پھر تہ نشین ہوجاتے ہیں۔ الغرض تمام عمر یہ دنیا ،دنیا داروں کو دریائے فکر کی گہرائی سے نکلنے نہیں دیتی یہاں تک کہ موت سے ہمکنار کردیتی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ایک مفکّرِ اعظم صاحب نے سوال کیا کہ اگر آپ میرے ایک سوال کا جواب دے دیں تو میں آپ کی نبوت کو تسلیم کرلوں، فرمایا:کہو۔ اس نے کہا کہ اگر کسی کمان سے مسلسل تیروں کی بارش ہورہی ہو تو اس سے بچنے کی تدبیر کیا ہے؟ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے اس کے جواب کا انتظار فرمایا۔ وحی الٰہی سے جواب عطاہوا کہ اس سے کہہ دیجیے کہ تیر چلانے والے کے پاس بھاگ کر کھڑا ہوجاوے۔ آہ یہی راز ہے ارشادِ باری تعالیٰ فَفِرُّوۡۤا اِلَی اللہِ؎ کا ۔ اے لوگو! بھاگو اللہ کی طرف۔ اسی مضمون کو حضرت خواجہ عزیز الحسن صاحب مجذوبؔ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے شعر میں خوب ادا کیا ہے ؎ بلائیں تیر اور فلک کماں ہے چلانے والا شہ شہاں ہے اسی کے زیرِ قدم اماں ہے بس اور کوئی مفر نہیں ہے پس عاقل وہ ہے جوحق تعالیٰ کی رضا جوئی میں جیتا ہے اور اسی میں مرتاہے اور بے وقوف وہ ہے جو خود سراپامحتاج و محکوم غلام ہونے کے باوجود اپنے بااختیار مولیٰ کو ناراض کیے ہو۔ اسی لیے یہ ناکارہ عرض کرتاہے کہ حمقائے زمانہ کون ہیں؟ فسقائے زمانہ اور عقلائے زمانہ کون ہیں؟ اتقیائے زمانہ ۔ ہمیشہ بھلی راہ پر اہلِ عقل چلتے ہیں اور نادان بری راہ پر۔ حضرت عارف رومی رحمۃ اللہ علیہ اسی لیے فرماتے ہیں کہ ایسی عقل جو خدا شناس نہ ہو اور فکرِ معاد سے غافل مثلِ بہائم ہروقت فکرِ معاش میں مصروف ہو ایسی عقل سے تو جاہل ہی رہنا بہتر ہے اور وہ دیوانگی بہت کام کی ہے جو اغیار سے بیگانہ اور محبوب کا ------------------------------