معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
دل چاہتا ہے در پہ ان ہی کے پڑے رہیں سرِ زیرِ بار منتِ درباں کیے ہوئے مارا جو ایک ہاتھ گریباں نہیں رہا کھینچی جو ایک آہ تو زنداں نہیں رہا جو عقل کہ محبوبِ حقیقی کی راہ میں حجاب ہو یعنی ہروقت کھانے اور ہگنے موتنے میں مشغول رکھے اور اسی کو زندگی کا حاصل بتاکر بہائم کے مشابہ بنادے وہ عقل اسی قابل ہے کہ اس کے سر پر خاک ڈال دی جائے ؎ ساقیا برخیز در دہ جام را خاک بر سر کن غمِ ایام را اے مرشدِ کامل! اٹھیے اور ایک جامِ محبت پلادیجیے اور زمانے کے افکار وحوادث پر خاک ڈال دیجیے ؎ سینکڑوں غم ہیں زمانہ ساز کو اک ترا غم ہے ترے ناساز کو (اختر) اہلِ دنیا بنگلوں اورکاروں اور شراب و کباب کے باوجود ہروقت اپنی چاند پر افکار کی لاتیں کھاتے رہتے ہیں اور بالآخر عاجز اور تنگ آکر نشہ اور مشروبات سے اس درد کو غلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر جب نشہ اترتاہے تو درد میں دگنا اضافہ محسوس ہوتاہے کیوں کہ علاج غلط تھا ، درد کاعلاج احساسِ درد کو مفلوج اور سُن کرنا نہیں ہے بلکہ درد کے سبب کا ازالہ ہے، انجام کار مصائب سے اور افکار کی لاتیں کھاتے کھاتے ایک دن دم توڑدیتے ہیں۔ یا خود کشی کرکے حرام موت مرجاتے ہیں اور دنیا بھی عجیب ہے کہ اگر یہ دنیا دار ایڑی چوٹی کا زور لگاکر خون پسینہ گراکے ایک دو افکار سے نجات بھی حاصل کرلیتے ہیں لیکن بحرِ فکر کی تہہ سے یہ بیچارے سطحِ راحت و سکون پر سر نکالنے بھی نہیں پاتے کہ