معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
گرچہ آہن سرخ شد او سرخ نیست پر توِ عاریتِ آتش ز نیست اگر لوہا آگ کی صحبت میں سرخ ہوجائے تو اس کو چاہیے کہ اس سرخی کو اپنی ذاتی سرخی سمجھ کر ناز نہ کرے بلکہ اس سرخی کو فیضانِ آتش سمجھ کر اس کو محض عطا ومستعار سمجھے اور ڈرتارہے کہ اس فیضانِ حرارت نے اگر میری خود بینی اور عجب کے سبب بوجہ غیرت توجہ مجھ سے ہٹالی تو پھر میں اسی طرح کالا بد رنگ لوہا ہوجاؤں گا اور میری یہ سرخی ہرگز باقی نہ رہ سکے گی۔ گر شود پر نور روزن یا سرا تو مداں روشن مگر خورشید را اگرکوئی دریچہ یعنی کھڑکی یا گھر شعاعِ آفتاب سے روشن ہو تو اس روزن اور گھر کو اس روشنی کو ذاتی سمجھ کر تکبر اور ناز نہ کرنا چاہیے بلکہ صرف عطائےآفتاب کا ممنون رہنا چاہیے اور آفتاب کے سامنے سراپا نیاز بن جانا چاہیے اور یوں سمجھنا چاہیے کہ ہم روشن نہیں بلکہ یہ آفتاب ہی کے انوار ہیں۔ پس روشن آفتاب کو سمجھو نہ کہ دریچہ اور گھر کو۔ حق تعالیٰ اسی کو فرماتے ہیں کہ جو کچھ تم کو بھلائی اور اچھائی پہنچے وہ سب محض عطائے خداوندی ہے۔ فائدہ:طالب جو کچھ اپنے شیخ کی صحبت سے فیضانِ قرب اور اخلاقِ عالیہ اور علوم ومَعارف اور لذۃِ ذکر و طاعات اور جملہ تجلیاتِ اسماء کا ظہور اپنی روح میں محسوس کرے تو اس کو اپنا ذاتی کمال نہ سمجھے بلکہ یوں سمجھے کہ شیخ کا قلب جو مثل آفتابِ منور بنورِ حق ہے وہ امرِ حق سے میرے قلب کو انوارِ قربِ خاص سے لعل بنار ہاہے پس اس سرخیٔ مستعار پر ہمیشہ شیخ کا ممنون اور متواضع اور سراپا نیاز بن کررہے،کبھی اپنی ذاتی سرخی سمجھ کر ناز اور خود بینی میں مبتلا نہ ہو ورنہ غیرتِ حق سے قلبِ شیخ کا فیضان بند ہوجاوے گا اور تم پھر وہی خس و خاشاک اور سیاہ لوہے کی طرح دوکوڑی کے ہوجاؤگے۔ حق تعالیٰ ہم سب کو عجب و کبر و پندار اور نازو خود بینی سے محفوظ فرماویں۔ آمین۔