معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
ہم نے کائنات کو رنگین اورمزین بنایاہے اس لیے ہم ان لوگوں کی آزمایش کریں( کہ کون اس نقش و نگار فانی پر فریفتہ ہوکر ہم کو بھول جاتاہے اور کون اس کی فنائیت پر نظر رکھ کر ہم کو یاد رکھتاہے اور اچھے عمل کرتاہے) اور ہم ایک دن زمین کو چٹیل میدان کردیں گے۔ یعنی یہ سب کارخانے اور دنیا کے ہنگامے فنا ہوجائیں گے۔ تو ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دریافت کیا:یارسول اللہ!ہم لوگوں میں کون اَحْسَنُ عَمَلًا ہے یعنی اعمال کے اعتبار سے احسن ہے؟ ارشاد فرمایاکہ : اَحْسَنُکُمْ عَقْلًا وَ اَوْرَعُکُمْ عَنْ مَّحَارِمِ اللہِ اَسْرَعُکُمْ فِیْ طَاعَتِہٖ سُبْحَانَہٗ؎ جس کی سمجھ اچھی ہو اور اچھی سمجھ کی علامت یہ ہوگی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں سے بہت بچنے والا ہوگا اور اللہ کی فرمانبرداری میں بہت آگے بڑھنے والاہوگا ۔ شعرِ اوّل کاخلاصہ یہ ہے کہ اگر عالمِ غیب کو دنیا ہی میں دیکھ لو تو اس قدر خوف طاری ہوگا کہ عقل و حواس کھوبیٹھوگے اور بیوی بچوں کے حقوق اور معاش کے انتظامات سب درہم برہم ہوجاویں گے۔ اہل اللہ پر بعض اسرارِغیب منکشف ہوگئے اس وقت ان کی زبان پر مہرِ سکوت لگادی جاتی ہے۔ اسی طرف مولانا نے ایک مقام پراشارہ کیاہے ؎ فاش اگر گویم جہاں برہم زنم پس دنیا میں اللہ تعالیٰ کا خوف صرف اس قدر مطلوب ہے جو حق تعالیٰ کی نافرمانیوں سے روک دے۔ : اَللّٰہُمَّ اقْسِمْ لَنَا مِنْ خَشْیَتِکَ مَاتَحُوْلُ بِہٖ بَیْنَنَا وَبَیْنَ مَعَاصِیْکَ؎ حضور صلی اللہ علیہ وسلم عرض کرتے ہیں کہ اے اللہ! ہم کو اپنی خشیت اور خوف کی اتنی مقدار عطافرمادیجیے جو ہمارے اور آپ کی نافرمانیوں کے درمیان روک بن جاوے۔ ------------------------------