معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
یہی وجہ ہے کہ جن کے قلوب معرفتِ حق سے عظیم المرتبت ہوگئے وہ ظاہری اسبابِ عیش کے بغیر بھی اپنے باطن میں ایسا سکون وچین محسوس کرتے ہیں جو بادشاہوں نے خواب میں بھی نہیں دیکھا۔ چناں چہ مسجد کے گوشے میں وہ بوریا اور چٹائی پرمست ہیں ؎ خدا کی یاد میں بیٹھے جو سب سے بے غرض ہوکر تو اپنا بوریا بھی پھر ہمیں تختِ سلیماں تھا اوردنیاداروں کے دلوں پرغموم وافکار کی اتنی لاتیں پڑتی رہتی ہیں کہ وہ ظاہری عیش وآرام کے باغ میں بھی ترش رو ،بدحواس اور نامراد نظر آتے ہیں۔ تن سپید و دل سیاہستش بگیر در عوض در تن سیاہ و دل منیر دنیا داروں کے دل سیاہ ہیں اگرچہ جسم کی کھال سفید و چمک دار ہویالباسِ فاخرانہ سے چمک دار معلوم ہوتے ہوں۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنے یہودی غلام کودے کر اس کے عوض میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو خریدا اور یہ فرمایا کہ اس یہودی کو جس کی کھال سفید اور دل کالا ہے لے لو اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو جس کی کھال کالی ہے اور دل کلمۂ توحید سے روشن ہے مجھے دے دو۔ یہی حال آج کل نئی روشنی کاہے کہ ظاہر میں روشنی اور اندر اندھیراہوتاہے۔ حضرت خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے خوب فرمایاہے ؎ ترا اے نئی روشنی منہ ہو کالا دلوں میں اندھیرا ہے باہر اجالا تسخیرِ مہر و ماہ مبارک تجھے مگر دل میں اگر نہیں تو کہیں روشنی نہیں دل گلستاں تھا تو ہرشے سے ٹپکتی تھی بہار دل بیاباں ہوگیا عالم بیاباں ہوگیا