معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
اسی سبب سے عشقِ مجازی کے تمام ہنگامے جلد ہی خاموش ہوجاتے ہیں اور عشقِ حقیقی کا ہنگامہ ہمیشہ گرم تر اور ترقی پذیر رہتاہے اور جو لذت روح کو عطاہوتی ہے وہ صدہاحیات قربان کردینے پر بھی ارزاں ہے۔ چشمِ غرہ شد بخضر ائے دمن عقل گوید بر محکِّ ماش زن گاؤں میں اہلِ دیہات جانوروں کا پائخامہ ایک جگہ جمع کردیتے ہیں ، ہوائیں اس پر خاک کی تہہ جمادیتی ہیں ،بارش اس پرنہایت عمدہ سبزہ اُگادیتی ہے، نیچے گوبر جس نے نہیں دیکھا اس کی آنکھ اس سبزے پر فریفتہ ہوجاتی ہے، عقل کہتی ہے کہ تہہ سبزہ کیا چیز ہے اس کی تحقیق کرو، دنیا مردار ہے، اوپر سے مزین اور حسین ہے، اللہ ورسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم دنیا کی بے ثباتی اور فنائیت سے آگاہ فرماتے ہیں۔ کفار پھر بھی اسی پر عاشق ہیں اور موت کے وقت محروم کفِ افسوس ملتے ہوئے، اس رنگین دنیا کو چھوڑ کر چلے جاتے ہیں ؎ رنگ رلیوں پہ زمانہ کی نہ جانا اے دل یہ خزاں ہے جو باندازِ بہار آئی ہے جو چمن میں گزرے تو اے صبا تو یہ کہنا بلبلِ زار سے کہ خزاں کے دن بھی ہیں سامنے نہ لگانا دل کو بہار سے زاں لقب شد خاک را دارا لغرور کو کشد پا را سپس یوم العبور اسی سبب سے دنیائے فانی کا لقب دھوکے کا گھر (دارالغرور) رکھاہے اور یہ لقب رکھنے والا وہ ہے جس نے دنیا کو پیداکیاہے پس خالق سے بڑھ کر اپنی مخلوق کی حقیقت کون جان سکتاہے، دنیا دھوکے کا گھر اس وجہ سے ہے کہ جب انسان کا سفر دوسرے عالم کو شروع ہوتاہے یعنی موت آتی ہے تو مرنے والے کا مکان، تجارت، دوست، احباب،