معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
قاطع الاسباب لشکرہائے مرگ ہمچو دے آید بقطعِ شاخ و برگ رحمت کے اسباب ووسائل کوختم کرنے والی فوج یعنی موت مع اپنے لشکر کے مثلِ خزاں کے تم کو بے روح کردے گی اورحیاتِ عارضی کی بہار چندروزہ پردائمی زندگی یعنی آخرت کا عیش تباہ کرنے والا اس وقت خزاں رسیدہ چمن ہوگا۔ (وے بمعنیٰ خزاں) آں زماں یک چاہ شورے اندروں بہ ز صد جیحونِ شیریں از بروں اس وقت جب کہ قلعے کے اندر کوئی چشمہ نہ ہو اور اہلِ قلعہ صرف بیرونی نہروں سے پانی حاصل کرتے ہوں اور اچانک دشمن کی فوج باہر سے نہروں کو بندکردے تو اہلِ قلعہ کی زندگی کے لیے اسی قلعے کے اندر ایک کھاری چشمہ بھی باہر کےسینکڑوں دریائے جیحون سے بہتر ہوگا،اسی طرح زندگی میں خواسِّ خمسہ کے ذریعے انسان عیش حاصل کررہاہے اور موت آنکھ،کان،ناک،زبان اور جلد(باصرہ،سامعہ ، شامّہ ، ذائقہ، لامسہ ) کے ذریعے باطن میں درآمد ہونے والی لذتوں کے راستوں کو کاٹ دیتی ہے اور یہ حواس دنیا کی لذتوں کومحسوس کرنے سے عاجز اور معطل ہوجاتے ہیں ؎ قضا کے سامنے بےکار ہوتے ہیں حواس اکبرؔ کھلی ہوتی ہیں گو آنکھیں مگر بینا نہیں ہوتیں (اکبرؔ) اب مردے کی زبان شامی کباب کے لطف سے معطل ہے،اس کی آنکھیں بیوی بچوں کودیکھنے سے عاجز ہیں، کان ریڈیو کے نغمات نہیں سن سکتے۔ زبان بے زبان ہورہی ہے، کیا بےکسی کا عالم ہے، اس وقت اگرروح میں تعلق مع اللہ کا کوئی کھاری چشمہ بھی ہوتا یعنی ناقص طاعات کا ضعیف نور بھی ہوتاتویہ لذاتِ فانیہ کے ان سینکڑوں دریائے شیریں سے جو بذریعۂ حواسِّ خمسہ اندر داخل ہورہے تھے بہتر ہوتا اور اس بے کسی کے وقت روح کو اس سے انس و سکون حاصل ہوتا۔ حق تعالیٰ اپنی رحمت سے سب