معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
راہِ لذت از دروں داں نز بروں ابلہی داں جستنِ قصرِ حصول لذت کا راستہ اندر سے ہے باہر سے نہیں ہے۔ محل و قلعے کی جستجو بے کار ہے۔ بڑے بڑے محل والوں کو خود کشی پر آمادہ پایا گیا کیوں کہ جب دل میں کوئی خیال غم موجود ہوتاہے تو بنگلے اور کار اور شراب و کباب سب تلخ معلوم ہوتے ہیں ؎ دل گلستاں تھا تو ہر شے سے ٹپکتی تھی بہار دل بیاباں ہوگیا عالم بیاباں ہوگیا از بروں چو گورِ کافر پُر حلل و اندروں قہرِ خدائے عز و جل کافر کی قبر پر بینڈ باجے بجائے جاتے ہیں اور پھولوں کی بارش کی جاتی ہے لیکن اندر خداکا قہر ہوتارہتاہے پس صرف ظاہر کا آرام مت دیکھو،دل کا اطمینان جو صرف حق تعالیٰ کے فرماں برداروں کو نصیب ہوتاہے وہ حاصل کرناچاہیے۔ شاہِ جاں مر جسم را ویراں کند بعد ویرانش آباداں کند جس طرح کسی مکان میں دفینہ ہو اور صاحبِ مکان مفلس ہو اور اس کو کوئی صادق القول مشورہ دے کہ اس مکان کو تم ویران کردو تو نیچے تمہارے دادا کا دفن کردہ خزانہ مل جاوے گا۔ پھراس سے تمہارا افلاس بھی دور ہوجاوے گا اور اس سے بہتر مکان بن جاوے گا اسی طرح اس جسم اور اس کی خواہشات کو حق تعالیٰ شانہٗ اولاً مجاہدات سے ویران کرتے ہیں اور اس کے بعد اپنے تعلقِ خاص کے خزانے سے ایسی حیات عطافرماتے ہیں کہ دنیا ہی میں جنت کا لطف وچین معلوم ہونے لگتاہے ؎ ترے تصور میں جانِ عالم مجھے وہ راحت پہنچ رہی ہے کہ جیسے مجھ تک نزول کرکے بہارِ جنت پہنچ رہی ہے (احسنؔ)