معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
قصر چیزے نیست ویراں کن بدن گنج در ویرانی است اے میرِ من خزانہ ہمیشہ ویرانی میں دفن کیاجاتاہے پس محل کوئی چیز نہیں۔ جسم کو اور اس کی طاقتوں کو تقویٰ کے حمام میں ویران کردو،پھردل کی خواہشات کا محل ویران کرنے کے بعد تعلق مع اللہ کا خزانہ اسی ویرانے میں مشاہدہ کرلوگے،پہلے دل کی خواہشات کا خون کرناہوگا،ہرگناہ خواہ کتناہی لذیذ معلوم ہوچھوڑنا پڑے گا ؎ بہت گو ولولے دل کے ہمیں مجبور کرتے ہیں تری خاطر گلے کا گھونٹنا منظور کرتے ہیں مثلاً کوئی اجنبیہ یا لڑکا سامنے ہے، دل چاہتاہے کہ ایک نظراس کو دیکھ لوں، اسی وقت اللہ کا عاشق آسمان کی طرف دیکھتاہے کہ دل تو یہ چاہتاہے مگر ہمارامالک و خالق اور مولیٰ اوپر سے دیکھ رہاہے۔ ان کو ناراض کرکے ہم کب چین سے رہ سکتے ہیں، بس اپنی آنکھیں نیچی کرکے آگے گزرجاتاہے،اس وقت دل کا خون ہوتاہے مگراسی وقت جو قربِ خاص عطاہوتاہے وہ ہزاروں ذکر و نوافل سے بھی عطا نہیں ہوتاکیوں کہ ذکر میں تو لطف آتاہے اور یہاں دل کی خواہش تباہ ہوتی ہے ؎ میکدہ میں نہ خانقاہ میں ہے جو تجلّی دلِ تباہ میں ہے خواہشاتِ نفسانیہ سے گھبرانا نہ چاہیے، ان ہی کا خون کرکے سالک خونہائے قربِ خاص کامستحق ہوتاہے ؎ ما بہا و خونبہا را یافتم جانبِ جاں باختن بشتافتم ہم اپنے خوں کا خوں بہا یعنی مجاہدات کا ثمرہ تعلق مع اللہ کا انعام پاچکے ہیں اس لیے ہم خوشی خوشی جان دینے کے لیے جلدی کررہے ہیں۔