معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
ارے یہ کیا ظلم کررہاہے کہ مرنے والوں پہ مررہاہے جو دم حسینوں کا بھر رہا ہے بلند ذوقِ نظر نہیں ہے (مجذوب رحمۃ اللہ علیہ) خانۂ پُر نقش تصویر و خیال ایں صورہا پردہ بر گنجِ وصال اگر ان ہی صورتوں کے تصورات اورخیالات تمہارے دل میں بھرے رہے تو محبوبِ حقیقی کی تجلیاتِ ابدی سے محروم ہوجاؤگے کیوں کہ یہ سب حجابات ہیں خزانۂ وصال پر جس طرح چاند کا عکس پانی پر دیکھنے والا عاشقِ عکس ہونے کے سبب اصل چاند سے محروم اور ہرقدم عکس کی جستجو میں اصل سے دوری کا باعث ہوگا اسی طرح عاشقِ مجاز محروم رہتاہے عشقِ حقیقی سے اگرچہ بعض جہلائے صوفیا عشقِ مجازی کو عشقِ حقیقی کے حصول کا واسطہ سمجھ کرضَلُّوْافَاَضَلُّوْا کے مصداق ہیں،عشقِ مجازی دراصل عشق نہیں فسق ہے ؎ ایں نہ عشق است آں کہ در مردم بود ایں فساد از خوردنِ گندم بود یہ عشق نہیں ہے جس کو فاسقین عشق کہتے ہیں،یہ صرف روٹی کا فساد ہے، اگر چند دن کھانے کو نہ ملے تو تمام عشق ناک کے راستے نکل جاوے۔ جیساکہ دمشق میں عشق بہت پھیل رہاتھا اسی زمانے میں قحط پڑا، جب چند دن کھانے کو نہ ملا تو عاشقوں نے عشق سے توبہ کرلی ؎ چناں قحط سالی شد اندر دمشق کہ یاراں فراموش کردند عشق (سعدی رحمۃ اللہ علیہ ) عشقِ مجازی کا فسق ہونا قرآنِ پاک سےمنصوص ہ اَفَمَنۡ زُیِّنَ لَہٗ سُوۡٓءُ عَمَلِہٖ فَرَاٰہُ حَسَنًا؎ تفصیل کے لیےتمییزالعشق من الفسقمستقل رسالہ حضرت حکیم الامت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا مطالعہ کیا جاوے۔ ------------------------------