معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
اس وقت حالت سالک کی یہ تھی کہ مست ہورہاتھا ؎ جُرعہ خاک آلود چوں مجنوں کند صاف گر باشد ندانم چوں کند (رومیؒ ) خاک آمیز جُرعہ جب مجنون کردیتاہے تواگرصاف ہوگاتونہ جانے کیا کچھ کیف پیدا کرے گااَللّٰھُمَّ اٰتِنَا نَصِیْبًامِّنْہُ۔اٰمین یہ صاف جرعہ متقینِ کاملین اور صدیقین کا حصہ ہے۔ ورنہ معاصی ہمارے جُرعۂنور کو خاک آلود اور ظلمات آلود کردیتے ہیں اور صاف جرعہ یعنی قرب ِ خاص نصیب ہونے پر علومِ خاصہ اوروارداتِ غیبیہ سے قلب مشرف ہوتاہے اور کدوراتِ نفسانیہ سے اس کے انوارِ علوم صاف ہوتے ہیں۔ بال و پر ماکند عشقِ اوست موکشانش می کشد تا کوئے دوست حق تعالیٰ کے راستے میں ہمارے بال و پر خودحق تعالیٰ شانہٗ کی طرف سے جذب ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے اَللہُ یَجۡتَبِیۡۤ اِلَیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ؎ حق تعالیٰ جس کو چاہتے ہیں اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں۔دوسری جگہ ارشاد فرمایا یُحِبُّہُمۡ وَ یُحِبُّوۡنَہٗۤ؎ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اوّلًا ہم محبت کرتے ہیں پھر ہماری محبت کا عکس تمھاری جانوں کو ہماری یاد کے لیے مضطر کرتاہے اور تم اپنے دل میں ہماری یاد کا تقاضا محسوس کرتے ہو اور ہماری تلاش میں بے چین رہتے ہو۔ پس حق تعالیٰ کا یہ اجتذاب (کششِ غیبی) ہم کو موکشاں ان کے در بارِ خاص تک لے جاتاہے ؎ اس کی نگاہِ مہر خود مجھ کو اڑاکے لے چلی شبنمِ خستہ حال کو حاجتِ بال و پر نہیں (اصغرؔ ) ------------------------------