معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
گر ز چاہے می کنی ہر روز خاک عاقبت اندر رسی در آبِ پاک اگر تم کسی کنویں سےمسلسل مٹی نکالتے رہوگے توایک نہ ایک دن ضرور تم کو آب ِ صاف کاوصال نصیب ہوجائے گا اور قبل وصول آثارِ وصول شروع ہوجائیں گے۔ جن سے تم کو ہمت وحوصلہ افزائی اور ترقی فی المجاہدہ کی توفیق ہوگی اور ناامیدی سے حفاظت رہے گی۔ چناں چہ کنواں کھودنے والا جب مٹی میں نمی اور تری کا مشاہدہ کرتا ہے توخوش ہوجاتاہے کہ بس اب پانی قریب ہے۔ پھرپانی اورمٹی مخلوط یعنی کیچڑ جب نکالتاہے توسمجھتاہے کہ بس اب پانی بہت ہی قریب ہے اور تھوڑی سی محنت کے بعد صاف پانی کا سرچشمہ پالیتاہے ،یہی حال سالک کا ہے،سلوک میں اولاًبالکل خشک اوربے کیف ذکر اور مجاہدہ شروع کرتاہے،کچھ دن کے بعد اس کے ذکر میں حق تعالیٰ کی محبت کی نمی اور تری نمایاں ہونے لگتی ہے اور اس کی یہ لذت اور درد کی مٹھاس اس کی ہمت وحوصلہ افزائی کرتی ہے۔ ایک مدت کے بعد کیچڑ کا درجہ آجاتاہے،اب نمی سے ترقی ہوئی یعنی ذکر میں اللہ کی محبت کی حلاوت اور زیادہ ہوجاتی ہے لیکن انوارِ ذکر روح میں ابھی خالص نہیں ہوتے بلکہ ظلماتِ معاصی سے مخلوط ہوتے ہیں۔ اس حالت میں وہ اپنے نفس کی کھدائی اور تیزکردیتاہے یعنی مجاہدہ تیزکردیتاہے اور تقویٰ کامل کا اہتمام کرتاہے تاکہ اس آبِ غیرصاف سے (قربِ ناقص سے) مٹی (ظلمات ،معاصی) بالکلیہ الگ ہوجائے اور آبِ صاف(قربِ خاص) نصیب ہوجائے اور سالک سمجھ جاتاہے کہ اب پانی کی منزل قریب تر ہے پھرکچھ مدت مجاہدات و معمولات ،ذکر پر استقامت کی برکت سے یہ کیچڑ جس میں کہ پانی مغلوب اور مٹی غالب تھی ختم ہوجاتی ہے اور اب پانی غالب اور مٹی مغلوب ہوجاتی ہے جس کو گدلا پانی کہتے ہیں یعنی روح میں اب انوارِ ذکر غالب اورظلماتِ معاصی مغلوب ہوجاتے ہیں۔ پھر کچھ دن کی محنت و مجاہدے کے بعد یہ خاک آلودپانی بھی ختم ہوجاتاہے اور سالک آبِ صاف سے(وصولِ تام اور قربِ خاص سے) مشرف ہوجاتاہے ۔ اس کیفیت کو بس اتناہی سمجھ لیناچاہیے کہ جب پانی اور مٹی مخلوط تھا