معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
رہوگے توایک دن ضرور ایساآئے گا کہ تم اس دروازے سے کوئی سر دیکھو گے۔ گر نشینی بر سرِ کوئے کسے عاقبت بینی تو ہم روئے کسے اگر تم کسی گلی کے سرے پرجم کر بیٹھ رہوگے تواس گلی سے ضرورایک دن تم کو کوئی چہرہ نظرآوے گا۔ نوٹ : دونوں اشعار کاحاصل یہ ہے کہ حق تعالیٰ کی راہ میں مسلسل سعی کرتے رہو، ایک نہ ایک دن ضرور آغوشِ رحمت تمہارے لیے اپنا دامن واکرے گی اور تم پرنظرِ عنایتِ خاص ضرورڈالی جائے گی۔ مجاہدہ شرط ہے ؎ ور بعقل ادراکِ ایں ممکن بُدے قہرِ نفس از بہرِچہ واجب شدے (رومیؒ ) اگر اس قربِ خاص کا درجۂ تحقیق میں ادراک صرف عقل سے ممکن ہوتاتونفس پر مجاہدہ کیوں فرض ہوتا۔ تشنگاں گر آب جویند از جہاں آب ہم جوید بہ عالم تشنگاں پیاسے اگر جہان سے پانی ڈھونڈتے ہیں توپانی بھی اپنے پیاسوں کو تلاش کرتاہے ؎ مری طلب بھی کسی کے کرم کاصدقہ ہے قدم یہ اٹھتے نہیں ہیں اٹھائے جاتے ہیں (جگرؔ) نہ میں دیوانہ ہوں اصغر نہ مجھ کو ذوقِ عریانی کوئی کھینچے لیے جاتا ہے خود جیب و گریباں کو (اصغرؔ)