معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
تا نہ گردد فوت ایں نوع التقا کاں نظر بخت است و اکسیر بقا اسی واسطے اس صاحبِ شکوہ (یعنی حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام ) نے رہبانیت اور دامنِ کوہ میں خلوت اختیار کرنے کو منع فرمادیا تاکہ اس نوع کی ملاقات کے منافع اور فیوض وبرکات سے جو صالحین کی صحبت سے نصیب ہوتے ہیں محرومی نہ ہوجائے۔ بعضوں کی نظر میں حق تعالیٰ نے کیمیا کی خاصیت رکھی ہے کہ اس نظر کی برکت سے فاسق وفاجر ، صالح اور اشرار، ابرار ہوجاتے ہیں۔ جج اکبر الٰہ آبادی نے اس مضمون کو خوب کہا ہے ؎ نہ کتابوں سے نہ وعظوں سے نہ زر سے پیدا دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا یہاں پر اشکال ہوسکتاہے کہ جن بزرگ کا قصہ یہاں بیان ہورہاہے ،انھوں نے بھی تو دنیا ترک کردی تھی۔ جواب یہ ہے کہ کسی بادشاہ کاترکِ سلطنت کرکے فقر اختیار کرلینا اور گروہِ فقرا میں رہنارہبانیت نہیں ہے۔ رہبانیت نام ہے مخلوق سے بالکلیہ الگ ہوجانے کا۔ مولانارومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس نقاب پوش بادشاہ نے شاہِ تبوک کے کان میں نہ جانے عشق اور درد کی کیا بات کہہ دی کہ شاہِ تبوک نے اسی وقت اپنے سینے میں تعلّق مع اللہ کی دولت محسوس کی اور بزبانِ حال یہ شعر پڑھا ؎ جزاک اللہ کہ چشمم باز کردی مرا با جانِ جاں ہمراز کردی خدا آپ کو جزائے خیر عطافرمائے کہ آپ نے ہماری آنکھیں کھول دیں اور محبوبِ حقیقی سے ہمراز کردیا اور اس نقاب پوش صاحبِ نسبت بادشاہ سے عرض کیا کہ ہمیں بھی اپنے ہمراہ لے چلیں۔ آپ کا قلب سرچشمۂ آتشِ حق ہے آپ سے درخواست ہے کہ ؎