معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
عشقِ حق کی آگ سے سینہ مرا بھر دیجیے سلطنت ترک کرکے آپ کا مزدوروں کے ساتھ اینٹیں بنانااور لباسِ فخر میں خستہ حال رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ باطن میں کوئی دوسری سلطنت دیکھ چکے ہیں۔ جس کے سامنے ہفت اقلیم کی سلطنت بھی گرد ہے ؎ کسی کی یاد میں ہے مضطرب جانِ حزیں تیری گریباں چاک ہے اشکوں سے تر ہے آستیں تیری ترے دل کو میسّر ہے مقامِ قرب کی لذت تجھے پھر منّ وسلویٰ کیوں نہ ہو نانِ جویں تیری ( اخترؔ ) مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ صرف ان دوبادشاہوں کو ہی نہیں اور بھی بے شمار بادشاہوں کو عشق نے ان کے ملک اور خاندان سے جدا کردیا۔ جب عشق خونی کمان پر چلّہ چڑھالیتاہے تو لاکھوں سر اس وقت ایک پیسے کو بک جاتے ہیں۔ صد ہزاراں سر بہ پولے آں زماں عشق خونی چوں کند زہ بر کماں حق تعالیٰ کی محبت میں ایک دفعہ قتل ہونا ہزاروں زندگی سے بہتر ہے اور ہزاروں سلطنتیں اس غلامی پر جو عشقِ حق سے حاصل ہوتی ہے قربان ہیں۔ اولاً عشق میں اگرچہ مجاہدات سے جسم ویران ہوجاتاہے ۔ لیکن اس ویرانی میں جب خزانۂ نسبت (تعلّق مع اللہ) منکشف ہوجاتاہے تو عاشق بزبانِ حال کہتاہے ؎ نیم جاں عشق نے کیا لیکن ہاتھ میں قربِ لازوال ہے آج (اخترؔ ) فائدہ : اس حکایت میں تعلیم ہے کہ ؎