معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
پھیلادیتاہے۔ پس طوربھی میاں کی تجلی کا مشتاق تھا، موقع کوغنیمت سمجھ کرپارہ پارہ ہوگیا کہ تجلی قلبِ طورتک داخل ہوجاوے۔ صد ہزاراں پارہ گشتن ارزدیں از میانِ چرخ بر خیز اے زمیں اس محبوبِ حقیقی کے لیے لاکھوں ٹکڑے ہوجانابھی اولیٰ ہے۔ پس اے زمین!تو آسمان کو تاریک مت کر۔درمیان سے اٹھ جا۔اہلِ ہیئت کی تحقیق پرمولانا نے یہ مثال بیان فرمائی: نُوْرُ الْقَمَرِ مُسْتَفَادٌ مِّنْ نُّوْرِ الشَّمْسِ یعنی چاند کی روشنی ذاتی نہیں بلکہ آفتاب کی روشنی سے چاند روشن ہوتاہے۔ اور زمین آفتاب اورچاند کے درمیان جس قدرحائل ہوتی جاتی ہے،چاند کا اس قدر ٹکڑا بے نور اور سیاہ ہوجاتاہے یہاں تک کہ جب زمین کی حیلولت بالکل آفتاب اور چاند کے محاذات میں ہوجاتی ہے توچاند بالکل بے نورہوجاتاہے۔ اس مثال سے مرادمولانا کی یہ ہے کہ اے لوگو! تمہارا نفس مثل زمین کے تمہارے قلب اور آفتابِ حق کے درمیان حائل ہے اس وجہ سے تمہارادل تاریک ہے،جس قدر تم اپنے نفس کومٹاتے چلے جاؤ گے دل منور بنورِآفتابِ حقیقی یعنی نورِ باری تعالیٰ شانہٗ سے منور ہوتاچلاجاوے گا۔ جوحضرات منتہی صاحبِ ارشاد ہیں ان کے اندر بھی نفس کا جتناحصہ باقی رہ گیا اور اس کے افناء میں انھوں نے مجاہدۂ عبور دریائے خون سے تسامح اورتغافل اختیار کیا اور شیخِ کامل کے قدموں سے اپنے نفس کو پامال نہ کرایاان کے صاحبِ ارشاد وتلقین ہونے کے باوجود ان کے علوم و مَعارف اورارشادات اس قدر خاک آلود ہوں گے جس قدر ان کا نفس زندہ ہے،برعکس جس نے مجاہدۂ تامہ سے نفس کوبالکلیہ فناکردیا اس کے دل کاچاندعدمِ حیلولۃِ زمینِ نفس سے پورے دائرے کے ساتھ روشن ہوکربدرِکامل ہوجاتاہے اورایسے شخص کاایک جملہ بھی دس گھنٹے کے وعظ سے زیادہ اثر رکھتاہے اور اس کے ارشادات ظلماتِ نفس سے صاف محض نورہی نورہوکرطالبین کے دلوں اور ان کی جانوں میں عرفان ویقین کی وہ کیفیتِ راسخہ اتنی قلیل مدت میں پیداکردیتے ہیں کہ دوسروں