معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
نورِباطن کو بھی اپنے الفاظ کے ہمراہ طالبین کے قلوب میں داخل کردیتاہے۔ یہی وہ تاثیرِ صحبت ہے جس کو کیمیاکہا جاتاہے۔اورلَایَشْقٰی جَلِیْسُہُمْ؎ کے پیغام کا مفہوم بھی واضح ہوگیا۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ اولیاء اللہ ایسے رفقاء وجلساء ہیں جن کے پاس بیٹھنے والاشقی نہیں رہتایعنی ان کے انوارِ صدق و یقین سے شقاوت مبدّل بسعادت ہوجاتی ہے۔ گر تو سنگِ خارہ و مرمر بوی گر بصاحبدل رسی گوہر شوی پس اگر تمہارا دل گناہوں کی نحوست اور ظلمت سے بالکل تباہ ہوکرمثلِ پتھر کے قبولِ ہدایت کی صلاحیت سے محروم ہوچکاتب بھی تم مایوس نہ ہو،تم کسی صاحبِ دل خدارسیدہ کی صحبت میں چنددن رہ پڑو پھر دیکھوگے کہ وہی دل جو پتھرکی طرح بے قدر اور سخت قاسی وغافل تھا اب حق تعالیٰ کی محبت و معرفت و تعلّقِ خاص سے مشرف ہوکر آبدار بیش بہا موتی بن گیا۔ مہر ِپاکاں در میانِ جاں نشاں دل مدہ الّا بمہرِ دل خوشاں جب اللہ والوں کی صحبت میں ایسی تاثیرموجود ہے توپھر ہمیں ان پاک بندوں کی محبت کو کہاں رکھنا چاہیے؟ کیازبان پر؟ نہیں آگے بڑھو!دماغ میں؟ نہیں اور آگے بڑھو!جان میں؟ ہاں جان میں! مگرجان کی سطحِ ظاہرپرنہیں، وسطِ جان میں ان کی محبت کو پیوست کرلو۔ مہرِپاکاں درمیانِ جاں نشاں کایہ مفہوم ہے۔اس کے بعد دوسرے مصرعے میں فرماتے ہیں ؎ دل مدہ الّا بمہرِ دل خوشاں دل کسی کو مت دینا مگران ہی پاک بندوں کو کہ جن کے دل حق تعالیٰ کی محبت اور تعلّقِ خاص کے انوار سے اچھے ہوگئے ہیں۔یہ بڑے ہی باوفادوست ہیں، ان کی رفاقت کی ------------------------------