معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
وَحَمَلَہَا الۡاِنۡسَانُاورانسان نے اس کواٹھالیا،پس عارفین کی روحوں میں قربِ حق و رابطۂ خاص مع الحق کے فیضان سے جو وسعت پیداہوتی ہے اس کے سامنے تمام وسعتِ کائنات بے قدر ہوجاتی ہے۔ در فراخِ عرصۂ آں پاک جاں تنگ آید عرصۂ ہفت آسماں چو سلطانِ عزت علم بر کشد جہاں سر بجیبِ عدم در کشد جب مہرنمایاں ہوا سب چھپ گئے تارے وہ ہم کو بھری بزم میں تنہا نظر آیا وہ سلطانِ حقیقی جس دل میں اپنی محبت و معرفت کا جھنڈا نصب فرمادیتے ہیں اس کی شان وشوکت کے سامنے تمام کائنات جیبِ عدم میں اپنا سر ڈال دیتی ہے، اسی حال کو وحدت الوجودسےتعبیرکیاجاتاہے یعنی حق تعالیٰ کی جلالت و عظمت کااس قدر قویاستحضار ومشاہدہ کہ تمام ماسویٰ سے نظراٹھ جاوے اور دل بمصداق اس شعرکے ہوجاوے ؎ دل مرا ہوجائے اک میدانِ ہُوْ تو ہی تو ہو تو ہی تو ہو تو ہی تو ماہمہ فانی و باقی نیستم پس چرا پیشت بہستی ایستم جب ہم سب فانی ہیں اور ہمارے وجود کو بقا و دوام نہیں تو اے اللہ! آپ کے سامنے اپنے فانی وجود کو ہم کس طرح وجود کا مصداق سمجھیں ؎ رہتے ہیں ہم جہاں میں یوں جیسے یہاں کوئی نہیں اسی حال کا نام غلبۂ توحید اور وحدۃ الوجود ہے۔ جہلا صوفیا نے اس مسئلے کو خواہ مخواہ ایک معمّہ اور عجوبہ بنارکھا تھا مگرحضرت حکیم الامت مجدد الملت مولاناتھانوی رحمۃ اللہ علیہ