معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
نارِ شہوت کی تشبیہ نارِدوزخ سے دینے کے بعد اس کے بجھانے کا علاج یہ بیان فرمایاکہ دوزخ کی آگ کو جس چیز سے سکون ہوگااسی سے نارِ شہوت کوبھی سکون مل سکتاہے جیساکہ دونوں کارابطہ اورعلاقہ اوپرمذکورہوچکا۔ حدیث شریف میں وارد ہے کہ دوزخ میں جب تمام اہلِ دوزخ بھردیے جائیں گے تب بھی دوزخ کاپیٹ نہ بھرے گا اور ھَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ کہتی رہے گی یعنی’’کیااورکچھ بھی ہے‘‘ کانعرہ لگاتی رہے گی،یہی حال ہمارے شہوات کا ہے کہ جتناہی گناہ کرتے جاؤ گے اتناہی گناہ کی خواہش بڑھتی جائے گی اگرچہ شیطان کان میں یہی کہتارہتاہے کہ بس ایک مرتبہ یہ گناہ اورکرلوتودل بھرجاوےگا۔ پھرکبھی مت کرنالیکن اس فریب اوردھوکے میں آناسخت حماقت ہے، ہرگناہ سبب مزیدگناہوں کا ہوجاتا ہے ،تودوزخ کے نعرۂ ھَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ کاعلاج حق تعالیٰ کی طرف سے یہ کیاجاوے گا کہ حق تعالیٰ شانہٗ دوزخ پر اپناقدم مبارک رکھ دیں گے جس کی حقیقت کاپتا عالمِ آخرت ہی میں چلے گاکہ اس قدم کا کیا مفہوم ہے پس دوزخ کاپیٹ بھرجاوے گا اور ھَلْ مِنْ مَّزِیْدٍکا نعرہ قَطْ قَطْیعنی بس بس سے تبدیل ہوجاوے گا۔ حضرت جلال الدین رومیؔ رحمۃ اللہ علیہ نے یہی علاج نفس کی خواہشات کے دوزخ کے لیے تجویز فرمایاہے کہ اس آگ کوبھی تعلق مع اللہ کانورہی بجھا سکتا ہے۔ نفس کا پیٹ بھرنے کا علاج کثرتِ گناہ ہرگز نہیں ورنہ ہرگناہ کے بعد ھَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ کہے گا۔ پس علاجِ واحد صرف یہی ہے کہ کسی صاحبِ نسبت بزرگ سے تعلق پیدا کیا جاوے اور اس کی صحبت کے انوار دل میں حاصل کیے جائیں۔ وہی بتائے گا کہ دل میں نورکس طرح آتاہے۔ اللہ کانوراس قدر قوی ہوتاہے کہ دوزخ کو بھی ٹھنڈک سےتبدیل کردے یہی وجہ ہے کہ جب اہلِ ایمان دوزخ پر بذریعۂ پُلِ صراط عبور کریں گے تودوزخ سے آواز آئے گی: جُزْیَامُؤْمِنُ فَاِنَّ نُوْرَکَ تُطْفِیءُ نَارِیْ؎ اے مؤمن! جلد گزرجا تیرا نورمیری آگ کو بجھائے دیتاہے۔ اسی نورِ الٰہی کا اعجاز تھاکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب نمرود ملعون نے آگ میں ڈالاتووہ آگ گلزار بن گئی۔ ------------------------------