معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
بعض اوقات ایک سوال کے جواب کے وقت اتنے عنوانات ودلائل القاء ہوتے ہیں کہ میں حیران ہوجاتاہوں کہ کس دلیل کوپہلے بیان کروں اور کس کوبعد میں۔ قال را بگذار مردِ حال شو پیشِ مردِ کاملے پامال شو مگراس مٹکے کوتعلق من البحر کس طرح حاصل ہوگا؟ حق تعالیٰ سے رابطۂقویہ اور محبتِ مطلوبہ حاصل ہونے کاصرف یہ طریقہ ہے کہ اپنے قیل و قال کوکچھ دن کے لیے ترک کرکے کسی اہلِ دل عالم باعمل کی خدمت وصحبت میں رہ پڑو،تب صحیح طور پر صراطِ مستقیم پرعمل نصیب ہوگا۔ صراطِ مستقیم مبدل منہ ہے جس کابدل صراطِ منعم علیہم ہے اور منعم علیہم نبیین، صدیقین اور شہداء وصالحین ہیں: ’’وَکُلُّ ھٰذَا مَنْصُوْصٌ فِی الْقُرْاٰن‘‘ اور مقصود کلام میں بدل ہوتاہے۔ پس معلوم ہواکہ کسی منعم علیہ بندے کی صحبت اختیارکرنے سے دین کی صحیح روح،اخلاص واحسان کی نعمت کاعطاہونا عادۃِ الٰہیہ ہے اور شاذونادراس عادت کاتخّلف کالمعدوم ہے(مثل حضرت خضرعلیہ السلام) عام قانون کی پابندی مامور بہ اور مطلوب ہے۔ مردِ کامل سے مراد متبعِ سنت ہے جوکسی بزرگ کاصحبت یافتہ اور اجازت یافتہ بھی ہو،مردِ کامل کے سامنے پامال ہونے کامفہوم یہ ہے کہ اپنی رائے و تجویزکوفناکرکے اس کی رائے اور تجویزپرچند دن مجاہدہ کرکے عمل کیاجائے۔ تب یہ قال اس منعم علیہ مردِ کامل کی صحبت سے حال بن جاوے گا۔ خلاصہ یہ کہ صاحبِ قال اگر صاحبِ حال بننا چاہے تو کسی اہلِ دل کی صحبت اختیارکرے۔ مردِ کامل میں کمال کلّی مشکک ہے ورنہ کمال بالمعنی الحقیقی صرف سرورِ عالم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مخصوص ہے لیکن مجازاً اولیاء اللہ کے لیے بھی بوجہ کمال اتباعِ سنتِ نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم بمقابلہ عامۃ الناس مستعمل ہوتاہے۔ (من فیوضِ مرشدی رحمۃ اللہ علیہ)