معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
یادرکھوکہ تمام علوم کی روح صرف یہ ہے کہ تم یہ جان لوکہ کل قیامت کے دن ہم کس بھاؤمیں خریدے جائیں گے یعنی اگراخلاص قلب میں نہ ہوااور مخلوق میں ہاتھ پیراس وقت چومے جارہے ہیں توقیامت کے دن یہ مقبولیت بین الخلق سودمند نہ ہوگی۔ علم نبود الّا علمِ عاشقی مابقی تلبیسِ ابلیسِ شقی علمِ حقیقی صرف اللہ سے قوی رابطہ قائم کرناہے اوراگریہ دولت حاصل نہ ہوئی توپھریہ علم ابلیسِ لعین کادھوکا وفریب ہے یعنی جس طرح ابلیس باوجود علمِ تمام علوم شریعتِ امتِ موجودہ واممِ سابقہ کے مردود ہے اسی طرح وہ علومِ محضہ جومقرون بالعمل نہ ہوں اور تعلق مع اللہ ان سے حاصل نہ ہو توان پرناز وپندار و قناعت سخت دھوکا ہے۔ علمِ مقبول کی لازمی صفت خشیتِ الٰہیہ ہے: کَمَاقَالَ اللہُ تَعَالٰی: اِنَّمَا یَخۡشَی اللہَ مِنۡ عِبَادِہِ الۡعُلَمٰٓؤُا ؎ اورخشیت مستلزم ہے عمل کو۔ پس بدونِ خشیت کے علوم پرمطمئن رہنا سخت نادانی ہے۔ خم کہ از دریا در وا ہے شود پیشِ او جیحو نہا زانو زند جس طرح کسی مٹکے کو اگر سمندرسے تعلق عطاہوجائے تواس مٹکے کے سامنے بڑے بڑے دریائے جیحون زانوئے ادب طے کرتے ہیں اسی طرح جب ان علومِ ظاہرہ کے ساتھ اے علماء !تم حق تعالیٰ سے قوی رابطہ قائم کرلوگے تو تمھارے ان علوم میں بھی چار چاند لگ جائیں گے یعنی عجیب عجیب علوم و مَعارفِ افاضۂغیبیہ سے اپنے اندر پے درپے محسوس کروگے اوربڑے بڑے علمائے ظاہر تمھارے سامنے زانوئے ادب طے کریں گے کیوں کہ تعلق من البحر کے فیض سے یہ مٹکا خشک نہ ہوگا اور دریائے جیحون خشک ہوسکتے ہیں۔ حضرت مولانامحمدقاسم صاحب رحمۃ اللہ علیہ بانئ دیوبند فرمایا کرتے تھے کہ ------------------------------