معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
سامنے سلطنت ہفت اقلیم ہیچ نظر آئے گی۔ یہی وجہ ہے کہ بعض سلاطین کوجب ذکر کامزہ مل گیا توآدھی رات کو چپکے سے گُدڑی اوڑھی اور جنگل میں نکل گئے۔ آں دم کہ دل بعشق دہی خوش دمے بود درکارِ خیر حاجتِ ہیچ استخارہ نیست چوں کہ زد عشقِ حقیقی بر دلش سر د شد ملک و عیال و منزلش نیم شب دلقے بپوشید و برفت از میانِ مملکت بگریخت تفت ترجمہ: جب عشقِ حقیقی نے اس بادشاہ کے دل پراثر کیا تواس پرملک اور محلِّ شاہی اور اولاد کالطف سرد پڑگیا پس آدھی رات کو اٹھا، گدڑی اوڑھی اور اپنی سلطنت سے باہر نکل گیا اور بزبانِ حال کہا ؎ ترے تصور میں جانِ عالم مجھے یہ راحت پہنچ رہی ہے کہ جیسے مجھ تک نزول کرکے بہارِ جنت پہنچ رہی ہے (احسنؔ) نامِ او چو بر زبانم می رود ہربنِ مو از عسل جوئے شود خاتمِ مثنوی مولاناکاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب حق تعالیٰ کانامِ پاک زبان پر جاری ہوتاہے تومیاں کے نام کی مٹھاس اور شیرینی ایسی محسوس ہوتی ہے گویامیرے جسم کے ہربال کے سوراخ سے شہد کی نہریں جاری ہوگئیں۔ اس لطف کی وجہ حق تعالیٰ کاوہی احسان و کرم ہے کہ بوقتِ آفرینش ہمارے خمیر میں اپنی محبت و طلب و پیاس کی تخم ریزی فرمادی تھی یعنی ہمارے جسمِ خاکی میں ایک مضغۂ دل رکھ دیا جس کی اصل غذا صرف اپنی یاد مقررفرمادی ہے ؎