معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
کیا کہ اے صاحبِ جمال ! آپ اپنے صحیح حال سے مجھے آگاہ کیجیے۔ آپ کا یہ روشن چہرہ شہادت دیتاہے کہ آپ کسی ملک کے بادشاہ ہیں لیکن یہ فقر ومسکنت کس سبب سے؟ آپ نے اپنی راحت اور سلطانیت کو اس کلفت اور فقر کی ذلّت پر قربان کیا۔ اے عالی حوصلہ! آپ کی اس ہمت پر میری یہ سلطنتِ تبوک ہی نہیں بلکہ صدہا سلطنتیں قربان ہوں۔ مجھے جلد اس راز سے آگاہ کیجیے۔ اگر آپ میرے پاس مہمان رہیں تومیری خوش نصیبی ہوگی اور آپ کے قرب سے میری جان بوجۂ خوشی سوجان کے برابر ہو جائے گی۔ اس طرح بہت سی ترکیبوں سے شاہِ تبوک اس لباسِ فقر میں ملبوس بادشاہ سے دیر تک بات کرتارہاتاکہ اس کا راز منکشف ہوجائے۔ لیکن راز ونیاز کی گفتگو کے بجائے اس نقاب پوش بادشاہ نے شاہِ تبوک کے کان میں درد وعشق کی نہ جانے کیابات کہہ دی کہ اسی وقت یہ بادشاہِ تبوک بھی عشقِ الٰہی سے دیوانہ ہوگیا اور اپنی سلطنت کو ترک کرکے اس تارکِ دنیا شاہِ نقاب پوش کے ساتھ رہنے کے لیے تیار ہوگیا۔ آدھی رات کو یہ دونوں بادشاہ اس ملک سے نکل کرکسی اور سلطنت میں چل دیے تاکہ خلقت پریشان نہ کرے اور فراغِ قلب سے محبوبِِ حقیقی کی یاد میں مشغولی نصیب ہو۔یہ دونوں بہت دورتک چلتے رہے۔یہاں تک کہ کسی تیسری سلطنت میں داخل ہوگئے۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عشق نے یہ گناہ ایک ہی بار نہیں کیاہے بلکہ بکثرت ایسا کیاہے کہ مال وجاہ اور حکومت وسلطنت سب چھڑادی ہے ۔ گناہ کا لفظ مولانانے یہاں ان مخاطب کے اعتبار سے استعمال کیا ہے جو محبتِ حق سے کورے ہیں۔ کیوں کہ اہلِ دنیا اہل اللہ کو حقیر سمجھتے ہیں۔ غرض اس عاشقِ صادق نقاب پوش تارکِ سلطنت کی بات میں نہ جانے کیسی لذت تھی کہ شاہِ تبوک پر سلطنت کی تمام لذتیں حرام ہوگئیں، سارے عیش اس لذت کے سامنے ہیچ ہوگئے اور دل میں عشق ِ الٰہی کا ایک دریا موجزن ہوگیا ؎ اے سوختۂ جاں پھونک دیا کیا مرے دل میں ہے شعلہ زن اک آگ کا دریا مرے دل میں (خواجہ صاحبؒ )